021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میاں بیوی کے درمیان اختلاف کی صورت میں مناسب اقدام
71777طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

دو لڑکیوں کی  قریبی خاندان میں وٹہ سٹہ کی بنیاد پر شادی ہوئی، ان میں سے ایک لڑکی کو ایک ماہ بعد ہی گھر بھیج دیا گیا، والدین کے گھر آنے والی لڑکی شدید بیمار ہے، سسرال والے اس کے علاج معالجہ اور نان ونفقہ وغیرہ کسی چیز کی خبرگیری نہیں کر رہے، لڑکی کے والدین تنگی کے باوجود اپنی بچی کے اخراجات برداشت کر رہے ہیں، دونوں خاندانوں میں بدترین قسم کی بداعتمادی کی فضا بدستور قائم ہے اور ایک دوسرے پر تعویذ وغیرہ کرنے کے الزامات لگا رہے ہیں، لڑکی طلاق لینا چاہتی ہے، لڑکے والے طلاق نہیں دینا چاہتے اور طلاق دینے کو اپنی عار سمجھتے ہیں، جبکہ لڑکے نے آگے دوسرا نکاح بھی کر لیا ہے اور اس کے دو تین بچے بھی ہیں، لڑکے والے کہتے ہیں کہ ہم اس شرط پر طلاق دیں گے کہ لڑکی دوسری جگہ نکاح نہ کرے۔ لڑکی کو کسی بھی صورت میں سسرال کے گھر جانا اور ان کی شکل دیکھنا گواراہ نہیں۔لڑکی والوں کو یہ خدشات بھی ہیں کہ سسرال میں لڑکی کو ذہنی مریض مشہور کر دیا گیا ہے، جبکہ لڑکی جسمانی طور پر بیمار تو ہے، مگر ذہنی مریض نہیں ہے،  اس لیے کہیں کوئی جانی نقصان نہ پہنچا دیا جائے۔ان کے نزدیک ماضی میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔اس صورتِ حال کی روشنی میں کیا مناسب اقدام کیا جائے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی صورتِ حال کے مطابق چونکہ فریقین کے درمیان بداعتمادی اور ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی بدترین قسم کی فضاء قائم ہو چکی ہے اور لڑکی کو جسمانی طور پر نقصان پہنچائے جانے کا بھی خطرہ ہے (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے) اور عام طور پر ایسی صورتِ حال میں میاں بیوی کا اکٹھے رہنا مشکل ہوتا ہے، خصوصاً جبکہ لڑکی بیمار بھی ہے اور لڑکا شادی شدہ اور دوتین بچوں کا باپ ہے، اس لیے ایسی صورتِ حال میں بہتر یہ ہے کہ لڑکے سے طلاق یا  کچھ رقم دے کر خلع لے لیا جائے۔اگر لڑکا طلاق یا خلع دینے پر رضامند نہ ہو تو عدالت میں دعوی دائر کر دیا جائے، جس میں گزشتہ تمام تفصیل جج کے سامنے رکھی جائے  اور عدالت سےشوہر کے طلاق یا خلع دینے کا مطالبہ کیا جائے، (یہ بات یاد رہے کہ مذکورہ صورت میں خود جج کا عورت کو اپنی طرف سے طلاق یا فسخ نکاح کا حکم جاری کرنا شرعاً معتبر نہیں، کیونکہ مذکورہ صورت میں فسخِ نکاح کی کوئی وجہ موجود نہیں۔)

لہذا جج  شوہرکو اوّلاً طلاق یا خلع دینے پر راضی کرے، لیکن اگر  جج کے اصرار کے باوجود لڑکا  طلاق یا خلع میں سے کسی بات پر راضی نہ ہو تو پھر عدالت سے لڑکی کی جان اور عزت وآبرو کی حفاظت کے ساتھ ساتھ علیحدہ رہائش اور ماہانہ نفقہ (مثلا: دس يا پندره ہزار روپیہ وغیرہ) مقرر کیے جانے کا مطالبہ کیا جائے، اگر عدالت لڑکی کی جان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ علیحدہ رہائش اور ماہانہ نفقہ مقرر کر دیتی ہے تو لڑکی کو رخصت کر دیا جائے۔

حوالہ جات
             القران الكريم[النساء: 35]:
{وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَما مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَما مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا }
الفتاوى الهندية (1/ 488) دار الفكر، بيروت:
إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 445) دار الكتب العلمية، بيروت:
(إن نشز وإن نشزت لا) ولو منه نشوز أيضا ولو بأكثر مما أعطاها على الأوجه فتح، وصحح الشمني كراهة الزيادة، وتعبير الملتقى لا بأس به يفيد أنها تنزيهية وبه يحصل التوفيق.
 

                                       y

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

يكم رجب المرجب1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب