021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شیخ کو اپنے احوال کی اطلاع دینا
72921تصوف و سلوک سے متعلق مسائل کا بیانمعجزات اور کرامات کا بیان

سوال

تیسرے سوال کا جواب انکاری ہےکہ اطلاع و اتباع کا طریقہ کسی اصل سے ثابت ہونے کی بنا پر مسنون ہے۔ اور دلیل میں "فما المتفیھقون" کی حدیث پیش فرمائی ہے۔ اِس پر بھی دو سوالات ہیں:

1۔ پہلے تو حدیث ایک علمی سوال سے متعلق ہے، اور اصلاحی سوال اور علمی سوال میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے کیونکہ اصلاحی سوال یا تو مرض کے علاج کے متعلق ہوتا ہے یا اپنے احوال نقل کرکے تشخیصِ مرض و علاج دونوں کے متعلق ہوتا ہے۔ لہذا اِس واضح فرق کے ہوتے ہوئے اطلاع و اتباع کے طریقہ کے لیے کیسے مستدل بنے گا؟

2۔ کسی عمل پر مسنون کے اطلاق کے لیے ضروری ہے کہ اولا تو وہ صحیح حدیث سے ثابت ہو، اور ثانیا وہ خیر القرون میں بطورِ دین رائج بھی ہو۔ چنانچہ سنت کی تعریف اصولیین نے یہی کی ہے۔ "الطریقۃ المسلوکۃ فی الدین" ۔ اب اگر چہ اطلاع و اتباع کا مروجہ طریقہ کار "نافق حنظلۃ" جیسی احادیث سے ثابت ہوسکتا ہے، لیکن اولا تو یہ واقعہ نادر، جزئی اور اتفاقی ہے۔ ثانیا یہ طریقہ مروج نہیں تھا، تو یہاں مسنون کی شرط نہیں پائی جارہی۔ پھر اِس پر مسنون کا اطلاق کیسے کیا گیا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پہلے اشکال کے بارے صرف اتنی وضاحت کافی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا علمی سوال بھی نرا علم کے لیے نہیں ہوتا تھا، بلکہ اُن کا سوال اصلا عمل کے لیے ہوتا تھا۔ لہذا اصلاحی سوال اور علمی سوال کے درمیان فرق کرنا اور اِس فرق کو زمین و آسمان کے درمیان فرق جتنا لے جانا، کسی صورت درست نہیں۔ علمی اور اصلاحی سوال کے درمیان فرق حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شخصیات کو ذہن میں رکھ کیا جائے، نہ کہ ہمارے زمانے کو دیکھتے ہوئے کہ جس میں علم و عمل کے درمیان واضح فرق پایا جاتا ہے۔

دوسرے اشکال کے بارے میں دو باتیں سمجھنی چاہییں:

1۔ سابقہ فتوی میں اطلاع و اتباع کو جو مسنون طریقہ تزکیہ و احسان کہا گیا ہے، اُس میں یہ دعوی نہیں کیا گیا کہ تزکیہ و تصوف کی موجودہ پوری ہی ہیئت اصل سنت سے ثابت شدہ ہے، بلکہ اِس کے بارے میں علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے:

ثم لما تغیرت الأحوال مست الحاجۃ إلی کتابۃ العلوم وتدوینھا وإملاءھا... وكذلك الصوفیہ لما رأوا تغیر أحوال القوم مھدوا لعمارۃ الظاھر والباطن مجاھدات وخلوات... ولا یخفی أن ذلك کلہ من المقدمات. (إعلاء السنن: 18/450)

چنانچہ یہ دعوی نہیں ہے کہ یہ تمام طریقے مکمل طور پر مسنون ہیں اور اصل سنت سے ثابت ہیں۔ ہاں! آپ نے سوال میں خصوصیت کے ساتھ شیخ کو اپنے احوال کی اطلاع دینے کے بارے میں پوچھا تھا کہ یہ غیر مسنون حل ہے تو مسنون حل چھوڑ کر غیر مسنون حل کیوں اختیار کیا گیا۔ تو اِس بارے میں یہ جاننا چاہیے کہ چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اصلاح و تربیت براہِ راست وحی کے ذریعے ہوتی تھی، لہذا وہاں اپنے احوال کی اطلاع دینے کی زیادہ ضرورت پیش نہیں آتی تھی، بلکہ من جانب اللہ وحی کے ذریعے اُن کی تربیت کا انتظام ہوجاتا تھا۔ اور دوسرا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس درجے کے مصلح و مربی تھے تو آپ کی تربیت و اصلاح کے فیض سے صحابہ کرام کو اِس کی بہت کم ضرورت پیش آتی تھی۔ مگر بعد میں یہ دونوں باتیں ختم ہوگئیں، نہ تو براہِ راست وحی کے ذریعے اصلاح ممکن رہی اور نہ ہی بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی تربیت کرنے والے اُس درجے کے مصلحین امت کو میسر آئے۔ چنانچہ اِس صورتِ حال میں اُن امور کی ضرورت پیش آنے لگی، جن امور کی مذکورہ دو اوامر کے ہوتے ہوئے زیادہ ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ اِس وجہ سے دورِ نبوت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان جو اپنے احوال کی اطلاع دینے کے واقعات عدمِ ضرورت کی بنا پر بہت کم اور جزئی طور پر پیش آتے تھے، اُن کی اب زیادہ ضرورت پیش آنے لگی اور اِس طریقے کو اِسی ضرورت کی بنا پر سنت سے ثابت شدہ کیفیت سے بڑھ کر مروجہ طریقہ کار کے طور پر اپنایا جانے لگا۔

چنانچہ یہاں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اطلاع کا نفسِ طریقہ تو سنت سے ثابت ہے، جیسا کہ سوال میں بھی اِسے جزئی طور پر تسلیم کیا گیا ہے، لیکن صرف اِس کی مروجہ ہیئت ثابت شدہ نہیں ہے۔ اور چونکہ اطلاع و اِس کے دیگر لواحق کی مروجہ ہیئت ضرورت و حاجت کی بنا پر حاصل ہوئی ہے، ورنہ اصل طریقہ تو سنت سے ثابت شدہ ہے، لہذا اِسے غیر مسنون نہیں کہا جائے گا، بلکہ اِس پر سنت کا اطلاق ہی ہوگا۔ اور اِس پر سنت کے اطلاق کے لیے یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ نفسِ فعل کے ساتھ موجودہ ہیئت بھی اصل سے ثابت شدہ ہو۔

2۔ دوسری بات یہ کہ کسی کام کے سنت ہونے کے لیے ضروری ہے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہونے کے ساتھ خیر القرون میں بطور دین رائج بھی ہو، علی الاطلاق درست نہیں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ افعال دو طرح کے ہیں: ایک وہ جو دین میں بذاتِ خود مقصود ہوتے ہیں، اور دوسرے وہ افعال جو بذاتِ خود دین میں مقصود نہیں ہوتے، بلکہ مقصود تک پہنچنے کا واسطہ اور ذریعہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ "الطریقۃ المسلوکۃ فی الدین" افعالِ مقصودہ کے مسنون ہونے کی تعریف ہے، ذرائع وغیرہ پر لفظِ مسنون کا اطلاق کرنے کے لیے نفسِ ثبوت کافی ہے، خیر القرون میں بطور دین رائج ہونا ضروری نہیں، کیونکہ ذرائع پر بطور دین عمل نہیں کیا جاتا، بلکہ کسی دینی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اُس پر عمل کیا جاتا ہے۔

حوالہ جات

صفی ارشد

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

2/ شعبان/ 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب