021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خلافت و اجازت کا بیان
72920تصوف و سلوک سے متعلق مسائل کا بیانمعجزات اور کرامات کا بیان

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ!

چند دن پہلے منسلکہ استفتاء کا جواب ملا، جس کے دوسرے اور تیسرے سوال کے جوابات سے تشفی حاصل نہیں ہوئی اور کچھ طالب علمانہ سوالات ذہن میں پیدا ہوئے۔ امید ہے کہ حضرت اِن توہمات کو دور فرمائیں گے۔

دوسرے سوال کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ "اجازت مصلح اور مربی بننے کے لیے شرط لاینفک" ہے۔ یہاں دو سوالات ہیں:

1۔ اِس جواب اور مفتی فرید صاحب رحمہ اللہ کے فتوی میں بظاہر تعارض نظر آرہا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

"کسی کو مرید کرنے کی صحت کے لیے خلافت و اجازت شرط نہیں ہے۔ البتہ برکت کے حصول کے لیے خلافت واجازت شرط ہے۔ نیز اہلیت کے لیے اپنا ظن کافی نہیں ہے۔ اہلِ فن کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے"۔(فتاوی فریدیہ، کتاب التصوف والسلوک: 1/368)

2۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک متوارث صرف اور صرف نسبت اور صحبت چلی آرہی ہے۔ اب اگر اجازت کو بھی کسی کے مصلح ماننے کے لیے لازمی قرار دیا جائے تو بہت سارے مسلمہ مشائخ عظام اِس فہرست سے نکل جائیں گے، کما لایخفی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال کے جواب سے پہلے ایک تمہیدی بات سمجھنا چاہیے۔ تصوف کا اصل مقصد اپنے باطنی اعمال کی اصلاح اور باطنی امراض و رزائل کا ازالہ ہے۔ لہذا تصوف میں جن امور کو لازم قرار دیا گیا ہے، وہ اِسی مقصد کے حصول کی وجہ سے ناگزیر اور لازم قرار دیے گئے ہیں۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ اُن کے بغیر عموما مقصد کا حصول یا تو ناممکن ہوگا یا پھر بہت ہی مشکل ہوگا۔ اور جو کام مقصد کے حصول کے لیے ضروری نہ ہو، بلکہ مقصد اُس کام کو انجام دیے بغیر بھی حاصل ہوسکتا ہو تو پھر اُس کام کو لازم اور ضروری قرار دینا محض لغو اور بےکار ہوگا۔ غرض شرائط و قیود لاگو کرنے کا مدار اِسی بات پر ہوتا ہے کہ اِس کے ذریعے مقصد تک پہنچنا یقینی ہوتا ہے، جیسے کسی طبیب سے علاج کرانے کی صورت میں اُس طبیب میں علاج معالجہ کرنے کی صلاحیت کا ہونا اور اُس کا ماہرِ فن ہونے کی شرط لگانا اِسی غرض سے ہوتی ہے تاکہ اِس کے ذریعے صحیح طریقے سے علاج ہوسکے اور صحت کے حصول کا مقصد صحیح طور پر حاصل ہو۔ چنانچہ تصوف میں کسی کے شیخِ کامل ہونے کی جو شرائط بیان کی گئی ہیں، اُن میں بھی اصل مقصود یہی ہے کہ اُن شرائط کی رعایت رکھنے سے مقصد صحیح طور پر حاصل ہوسکتا ہے، لہذا تصوف میں نہ تو وہ شرائط بذاتِ خود مقصود ہوتی ہیں اور نہ ہی پیر اور شیخ بذاتِ خود مقصود ہوتا ہے۔ چنانچہ اِسی وجہ سے کسی کے شیخِ کامل ہونے کے لیے اُس کے پاس کسی خاس سلسلے کی اجازت ہونا اور اُس کا اپنے تعلق والوں کو اُس سلسلے میں بیعت کرنا کوئی ضروری نہیں۔ البتہ اُس کا ماہرِ فن ہونا لازم اور شرط قرار دیا گیا ہے، کیونکہ اِس کے بغیر کسی دوسرے کی اِس کے ہاتھ پر اصلاح ممکن نہیں۔

 اب یہ سمجھنا چاہیے کہ کون اِس کام اور فن میں کتنا ماہر ہے اور اُس میں دوسروں کی کس قدر اصلاح کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہ ایک ایسی مبہم بات ہے کہ جو شخص خود اِس کام سے واقف نہ ہو، وہ کسی دوسرے کے بارے میں ہر گز یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ کس میں دوسروں کی اصلاح کرنے کی صلاحیت ہے اور کس میں نہیں۔ چنانچہ جو کام عام لوگوں کے حق میں ضروری بھی ہو، لیکن لوگوں میں اُس کے ماہر کو پہچاننے کی صلاحیت بھی نہ ہو تو ایسے معاملے میں لوگوں کی آسانی کی خاطر اہلِ فن کی جانب سے ہر زمانے کی ضرورت کے لحاظ سے شرائط پر مشتمل ایک ایسا معیار مہیا کیا جاتا ہے جس کے ذریعے لوگوں کے لیے بھی اُس فن سے ناواقفیت کی باوجود اُس معیار کی بنیاد پر کسی کے حق میں ماہرِ فن ہونے کا فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔البتہ عام عوام کی رعایت اور اُن کا اِس فن میں غلطی کرنے جیسے امور سے قطع نظر کرتے ہوئے ٹھیٹھ فن کی شرائط کو امکانِ عقلی کی بنیاد پر اگر دیکھیں تو اصلاح کے لیے جو عقلی اعتبار سے شرط ضروری ہے وہ کسی کا صرف ماہر فن ہونا ہے۔ چنانچہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

"شیخ کا ولی ہونا ضروری نہیں، مقبول ہونا ضروری نہیں، ہاں فن کا جاننا اور اُس میں مہارت ہونا ضروری ہے۔" (ملفوظاتِ کمالاتِ اشرفیہ: 31)

حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ تعالی کی یہ بات فن کے اعتبار سے محض امکانِ عقلی کی بنا پر شرط کا بیان ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ عوام کو بھی کسی کو شیخ بنانے سے پہلے اتنا دیکھ لینا کافی ہے۔ چنانچہ حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ نے احسن الفتاوی میں اِس بارے میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالی کی بیان کردہ یہ وضاحت ذکر فرمائی ہے:

"تجربہ اور عادت اِس پر شاہد ہے کہ محض امکان عقلی سے کہیں دنیا میں کام نہیں چلتا جب تک اسبابِ مناسب اختیار نہ کرلے۔ فاسق شخص اگر چہ ماہرِ فن ہو، اُس پر یہ اعتماد ہی نہیں ہوسکتا کہ وہ اِس کی تدبیر صحیح کرے گا۔" (احسن الفتاوی: 1/545)

غرض اِس سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ عوام کے حق میں جب شرائط وغیرہ کو بیان کیا جاتا ہے تو محض فنی اعتبار سے امکانات کو نہیں دیکھا جاتا، بلکہ اور بھی دیگر خارجی امور کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، تاکہ مقصود حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ لوگ دیگر گمراہیوں سے بھی محفوظ رہیں۔ چنانچہ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمہ اللہ تعالی جو شیخ کامل ہونے کی شرائط بیان فرماتے ہیں، اُس میں انہوں نے عام لوگوں کی خاطر کئی امور کو مدِ نظر رکھا ہے۔ فرماتے ہیں:

"مرید شدن از آں کس درست است کہ در آں پنج شرط متحقق باشد۔ شرطِ اول: علمِ کتاب و سنت داشتہ باشد... شرطِ دوم: آنکہ موصوف بعدالت و تقوی باشد، و اجتناب از کبائر و عدم اصرار صغائر نماید۔ شرطِ سوم: آنکہ بے رغبت از دنیا و راغب در آخرت باشد، و بر طاعاتِ مؤکدہ و اذکارِ منقولہ کہ در احادیثِ صحیحہ آمدہ اند مداومت نماید۔ شرطِ چہارم: امرِ معروف و نہی از منکر کردہ باشد۔ شرطِ پنجم: آنکہ از مشایخ ایں امر گرفتہ باشد و صحبت معتدبھا ایشاں نمودہ باشد۔ پس ہر گاہ ایں شروط در شخصے متحقق شوند، مرید شدن از آن درست است۔(فتاوی عزیزی: 1/102)

اِس عبارت میں حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے جن امور کا لحاظ رکھتے ہوئے شیخ ہونے کی شرائط کو بیان فرمایا ہے، وہ ایسے امور ہیں جن کا لحاظ رکھ کر لوگوں کے لیے ایک صحیح پیر اور شیخ تک پہنچنا آسان ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ان ہی شرائط میں سے حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے یہ بھی شرط بیان فرمائی ہے کہ مصلح اور پیر نے دیگر مشایخ سے یہ فن حاصل کیا ہو اور اُن حضرات کی معتد بہ صحبت حاصل کی ہو۔ لہذا سلسلے کی رسمی خلافت اور اجازت کا حاصل ہونا مصلح بننے کے لیے اگر چہ ضروری نہیں ہے، لیکن فن کو اُس کے اہل سے حاصل کرنا اور سیکھنا لازم اور ضروری قرار دیا گیا ہے۔

اب یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ کسی کے بارے میں اِس بات کو جاننے کے لیے کہ اُسے اہلِ فن کا اعتماد حاصل ہے یا نہیں، کس چیز کو معیار قرار دیا جائے گا؟ کیونکہ سلسلے کی اجازت اگر چہ ضروری نہیں، لیکن اِس فن کے اہل سے اِس فن کو حاصل کرنا اور اُن کی جانب سے اعتماد کا حاصل ہونا تو بہرحال لازم اور ضروری ہے، جیسا کہ سوال میں ذکرکردہ مفتی فرید صاحب رحمہ اللہ  کے فتوی اور اوپر مذکور حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کی عبارت سے واضح ہوتا ہے۔ اب کیا کسی شخص کا محض کسی شیخ اور مصلح کی صحبت  اختیار کرنے کواُس شیخ کی جانب سے اُسے اعتماد حاصل ہونا قرار دیا جاسکتا ہے یا اِس میں مزید اور کوئی شرط بھی درکار ہوگی؟ ظاہر بات ہے کہ صرف صحبت کا حاصل ہونا اِس بات کی علامت ہر گز نہیں ہے کہ یہ شخص بھی اِس فن کا ماہر بن چکا ہے اور اِس کے پیر و مصلح کا اعتماد اِسے حاصل ہوگیا ہے، الا یہ کہ شیخ کی جانب سے اِس بات کی صراحت کردی جائے کہ اِس شخص کو بھی اب دوسرے کی تربیت اور اصلاح کرنے کی صلاحیت حاصل ہوگئی ہے۔ چنانچہ اتنا تو ضروری ہے کہ کسی کے بھی مصلح اور مربی بننے کے لیے اُسے کم از کم اپنے مصلح کی جانب سے اِس درجے کا اعتماد حاصل ہو کہ وہ اِسے تربیت و اصلاح کے لیے قابلِ اعتماد قرار دے، خواہ وہ مصلح اِسے اپنے سلسلے میں آگے بیعت کرنے کی اجازت نہ بھی دے۔ چنانچہ فن کی صلاحیت کے بارے میں صریح اعتماد تو بہرحال ضروری ہے۔ اِس اجازت کو تصوف میں خلافت مجازِ صحبت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے کہ جس میں کسی کو آگے سلسلے میں بیعت کرنے کی اجازت تو نہیں ہوتی، لیکن اصلاح اور تربیت کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ چنانچہ سابقہ فتوی میں جس اجازت کو لازم اور شرط قرار دیا گیا ہے وہ فن کی صلاحیت حاصل ہونے کی اجازت ہے، سلسلے کی اجازت و خلافت کو لازم اور ضروری نہیں کہا گیا ہے۔ سلسلے کی اجازت اگر چہ ایک بابرکت چیز ہے، لیکن وہ لازم نہیں ہے اور نہ ہی سابقہ فتوی میں اُسے لازم قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ اگر سابقہ فتوی کے الفاظ پر غور کیا جائے تو اُس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اُس فتوی میں جس اجازت کو ضروری قرار دیا گیا ہے، اُس کے لیے لازم لغیرہ کے الفاظ لکھے گئے ہیں اور اُس فتوی میں اُس اجازت کے متعلق یہ مذکور ہے:

"اور چونکہ کسی کے صحیح مصلح اور شیخ کامل ہونے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ اِس تربیتی عمل کے اصول و آداب خود جانتا ہو اور کسی کی تربیت میں رہ کر اِس قابل ہوچکا ہو کہ دوسرے کی تربیت کرسکے۔ اِس لیے اُسے اجازت کا حاصل ہونا لازم لغیرہ قرار دیا گیا ہے۔ اجازت بمنزلہ سند کے ہے کہ اب آپ انہی اصول و ضوابط کی روشنی میں دوسروں کی تربیت کے قابل ہوچکے ہیں۔"

چنانچہ مفتی فرید صاحب رحمہ اللہ کے فتوی میں اور اِس فتوی میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ مفتی فرید صاحب نے جس اجازت کو غیر مشروط قرار دیا ہے وہ سلسلے کی رسمی خلافت و اجازت ہے، جبکہ اِس فتوی میں جس اجازت کو لازم کہا گیا ہے وہ سند اور دلیل ہوتی ہے اِس بات پر اِس شخص کو کسی ماہرِفن کا اعتماد حاصل ہوگیا ہے۔

دوسرے اشکال کے بارے میں یہ عرض ہے کہ جیسا کہ اوپر کی سطروں سے یہ واضح ہوگیا کہ سابقہ فتوی میں سلسلہ کی اجازت و خلافت کو لازم اور ضروری نہیں قرار دیا گیا (جیسا کہ سابقہ فتوی سے سمجھا جارہا تھا)، بلکہ وہاں اجازت سے مراد وہ دلیل و علامت ہے جس سے مصلح کا ماہرِ فن ہونا اور اُسے اہلِ فن کے اعتماد حاصل ہونے کا پتا چلے۔ لہذا جس بنیاد پر یہ اشکال ہورہا تھا کہ اگر خلافت و اجازت کو بھی لازم سمجھا جائے تو بہت سارے مشائخ عظام اِس فہرست سے نکل جائیں گے، اب باقی نہیں رہتا اور جس اجازت کو لازم قرار دینے کی صورت میں یہ اشکال پیش آرہا تھا وہ اجازت اب بھی غیر مشروط ہے۔ یہاں تک تو اِس اشکال کا حقیقی جواب تھا۔ البتہ اگر بالفرض ہم سلسلے کی اجازت و خلافت کو ضروری مان بھی لیں تب بھی اِس بنیاد پر یہ اشکال نہیں بنتا کہ اِس طرح تو بہت سارے مشائخ اِس فہرست سے نکل جائیں گے، کیونکہ سابقہ فتوی میں حضرت علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی کتاب "اعلاء السنن" کا جو حوالہ ذکر کیا گیا تھا، اُسی میں اِس اشکال کا جواب موجود ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک تعلیم و تعلم کا معیار ایک سا نہیں رہا، بلکہ اُس میں بہت اتار چڑھاؤ اور فرق آگیا ہے اور زمانے کی ضرورت اور حاجت کے باعث انتظامی امور کی بنا پر کئی ایسی چیزیں لازم اور ضروری ہوگئی ہیں جو اِس سے پہلے ادوار میں لازم نہیں سمجھی جاتی تھیں۔ چنانچہ فی زمانہ کسی کے عالمِ دین بننے کے لیے کسی ادارے سے فارغ التحصیل ہونا اور امتحانات اور نصاب کے تمام تر مراحل کو عبور کرنا عملا لازم اور ضروری سمجھا جاتا ہے، حالانکہ تعلیم و تعلم کا یہ طریقہ کار گذشتہ ادوار میں نہیں تھا اور اِس معیار کو اگر پچھلے زمانوں میں دیکھیں تو کوئی بھی اِس معیار کے مطابق عالمِ دین نہیں کہلائے گا۔ غرض جس طرح اِس بارے میں یہ کہا جائے گا کہ زمانے اور حالات کی تبدیلی کے ساتھ اصل مقصد تو اپنی جگہ برقرار رہتا ہے مگر اُس تک پہنچنے کے واسطے اور ذرائع میں ضرورت اور حاجت کی وجہ سے ہر زمانے میں فرق آجاتا ہے، بالکل اِسی طرح طریقِ تصوف میں بھی بعد کے احوال کی تبدیلیوں اور ضرورتوں کی وجہ سے کچھ شرائط لازم اور ضروری ہوگئی ہیں، جو اصل میں لازم اور ضروری نہیں تھیں۔ لہذا کسی شرط یا لازم لغیرہ امر کو لے کر یہ اشکال نہیں کیا جاسکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اب تک تو یہ شرط لازم اور ضروری نہیں تھی، اگر اِسے لازم قرار دیتے ہیں تو بہت سارے افراد اِس فہرست سے نکل جائیں گے وغیر ذلک۔ چنانچہ اگر کسی شرط کو لازم قرار دیا جاتا ہے تو اِس میں یہ دعوی نہیں کیا جاتا کہ یہ شرط تمام ادوار میں متوارث چلی آرہی ہے اور کوئی اِس شرط سے خارج نہیں ہے، بلکہ اُسے زمانے کی ضرورت اور حاجت کی بنا پر لازم لغیرہ کے درجے میں شمار کیا جارہا ہوتا ہے۔

حوالہ جات

صفی ارشد

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

2/ شعبان/ 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب