021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدکی پنشن اورجی پی فنڈمیں چچا کادعوی کرنا
73069ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

کیافرماتےہیں علمائےکرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ میرےوالدصاحب کاگزشتہ سال انتقال ہوگیاہے،سرکاری ملازم ہونےکی وجہ سےسرکارکی طرف سےوالدہ کےنام پرپنشن اورجی پی فنڈجاری کیاگیاہے،والدصاحب کی ورثہ میں بیٹےبیٹیاں اورایک بیوہ حیات ہیں،لیکن والدصاحب کےبھائی یعنی ہمارےچچاسرکارکی طرف سےملنےوالےجی پی فنڈجوتقریبا چالیس لاکھ کی رقم بنتی ہے،حصہ دارہونےکادعوی کررہےہیں۔

برائےکرم قرآن وحدیث کی روشنی میں بتادیں کہ آیاچچاکایہ دعوی شرعاجائزہے؟اوراس فنڈاورپنشن کی تقسیم کاشرعی طریقہ کارکیاہےاورشرعاکون کتناحقدارہے؟

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی سرکاری یاپرائیوٹ ادارےکی طرف سے ملازم کوجوپنشن کی رقم دی جاتی ہےوہ ادارےکی طرف سےتبرع(انعام)ہوتاہے،ملازم کےوفات کی صورت میں ایسی پنشن کےبارےمیں شرعاادارےکےقوانین کااعتبارہوتاہے۔

صورت مسئولہ میں اگرقانون کےمطابق پنشن کی حق داربیوی ہی ہےتویہ(بیوی کو دی گئی پنشن کی رقم)خاص بیوی کےلیےتبرع  شمارہوگی،مرحوم کی اولاداوراس کےبہن بھائیوں کاشرعااس میں حق نہیں ہوگا۔اس لیےمذکورہ صورت میں چچاکوشرعاحق حاصل نہیں کہ وہ اپنےبھائی کی پنشن پردعوی کرے۔

رہامسئلہ جی پی فنڈکاتواس کاحکم یہ ہےکہ جی پی فنڈعام طورپرملازم کی ماہانہ تنخواہ سےکچھ حصہ کٹوتی کرکےکچھ مدت بعدیکمشت دیاجاتاہے،چونکہ زندگی میں ہی ملازم اس رقم کامالک بن جاتاہے(لیکن وصولی بعدمیں ہوتی ہے)اس لیےیہ رقم مرحوم کی میراث شمارہوتی ہے اوراس میں  شریعت کےمطابق تمام ورثہ کاحصہ ہوتاہے۔

صورت مسئولہ میں بھی ادارےکی طرف سےمرحوم کوجی پی فنڈکی جورقم ملی ہےاس میں بیوہ اوراولاد کاشریعت کےمطابق حصہ ہوگا،البتہ چونکہ مرحوم کی اولادزندہ ہونےکی وجہ سےچچاکامیراث میں حصہ نہیں بنتا،اس لیےجی پی فنڈسےمتعلق چچاکادعوی کرنادرست نہیں۔

مذکورہ دونوں مسئلوں کی تفصیل چچاکواچھی طرح سمجھانی چاہیے،ہوسکتاہےوہ شرعااپنےآپ کوحصہ کاحقدار سمجھ رہےہوں اس لیےدعوی کررہےہوں۔

حوالہ جات
"رد المحتار " 24 / 6:
كتاب الهبة وجه المناسبة ظاهر ( هي ) لغة : التفضل على الغير ولو غير مال .وشرعا : ( تمليك العين مجانا ) أي بلا عوض لا أن عدم العوض شرط فيه۔
"الدر المختار للحصفكي " 8 / 564:
(وسببها إرادة الخير للواهب) دنيوي: كعوض ومحبة وحسن ثناء وأخروي۔
قال الامام أبو منصور: يجب على المؤمن أن يعلم ولده الجود والاحسان، كما يجب عليه أن يعلمه التوحيدوالايمان، إذ حب الدنيا رأس كل خطيئة.نهاية وهي مندوبة وقبولها سنة، قال (ص): تهادوا تحابوا۔
"فتح القدير " 20 / 63:
باب الأجر متى يستحق قال : ( الأجرة لا تجب بالعقد وتستحق بأحد معان ثلاثة : إما بشرط التعجيل ، أو بالتعجيل من غير شرط ، أو باستيفاء المعقود عليه )۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

29/شعبان 1442 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب