73441 | جائز و ناجائزامور کا بیان | کھیل،گانے اور تصویر کےاحکام |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ:
۱)آج کل جو تصویر کشی کا معاشرے میں ایک طوفان برپا ہے، اس میں ڈیجیٹل تصویر سے متعلق تو علمائے کرام کی دو سے تین آراء پائی جاتی ہیں، لیکن پرنٹ تصویر کے بارے میں تقریبا تمام علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ بلاضرورت شدیدہ کھینچنا اور کھنچوانا حرام ہے،لیکن اس سے متعلق عرصہ دراز سے ذہن میں ایک سوال ہے کہ نفلی عبادات یا نفلی امور کے لئے پرنٹ تصویر بنوانا کیسے جائز ہے؟ اگرچہ اس کے بارے میں یہ جواب دیاجاتا ہے کہ اس طرح کے قوانین بنانے والوں پر اس کا وبال ہے، لیکن یہ بات ہم اس وقت تو کہہ سکتے ہیں جب وہ کام ایسا ہوکہ اس کے نہ کرنے کی وجہ سے معتد بہ ضرر لاحق ہوتا ہو مثلا حکومتی پابندی، یا ایسی تعلیم کے لئے ہو جو تعلیم حاصل کرنا دینی یا دنیوی اعتبار سے ضروری ہو، مثلا NIC وغیرہ کے لئے، لیکن نفلی حج ، عمرہ یا ایسی تعلیم کے حصول کے لئے جو صرف مستحب یا اس سے کم درجہ کا ہے، کیا اس کے لئے ایک حرام کام کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ خاص طور پر جبکہ حکومت کے طرف سے ایسے نفلی کام کرنے پر جبر بھی نہ ہو، مثلا اعلی تعلیم کا حصول یا مباح امور مثلا وزٹ ،یا سیر و تفریح کے لئے یہ امور فی نفسہ لازم نہیں ہے، اگر کوئی خود ایسے ادارہ میں جاتا ہے،ایسے غیر ضروری کام کے لئے تو ادارہ اسکو تصویر بنانے پر مجبورکرتا ہے، نہ کہ یہ ادارہ کی طرف سے جبر ہے، ایسا کام کرنے پر جو کہ مباح ہے ،جہاں تک بات ہے کفایت المفتی کے حوالہ سے جو بات لکھی جاتی ہےکہ حضرت نے پاسپورٹ وغیرہ بنانے کی اجازت دی ہے، اسکو ہم ایسے کام پر تو محمول کرسکتے ہیں کہ جس کے نہ ہونے کی صورت میں ضرر لاحق ہو،مثلا فرض حج کے لئے جانا ،شناختی کارڈ بنوانا وغیرہ اسکی مثال کہ مستحب کام کے لئے ناجائز کام کی اجازت نہیں ،جیسا کہ جمعہ کے دن امام کے قریب ہوکر بیٹھنا افضل ہے،اسی طرح پہلی صف میں آنا، لیکن جو دیر سے آئے اور اندر مجمع بیٹھا ہو تو جہاں جگہ میسر ہو وہیں بیٹھنے کا حکم ہے کہ ایک افضل کام کے حصول کے لئے لوگوں کہ کندے پھلانگنے کی ہر گز اجازت نہیں، اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں، جن میں مستحب کام کے لئے اگر ناجائز کام کرنے کی ضرورت ہو تو وہ مستحب کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تو آیا اب پرنٹ تصویر کا کیا حکم ہوگا؟
۲) دوسری بات اسی سے متعلق ہے کہ عورتوں کے لئے تعلیم کے حصول کے ئے تصویریں بنوانا ،جبکہ وہ تعلیم حا صل کرنا لازمی بھی نہ ہو بلکہ فرض کفایہ ہو یا محض مباح ہو تو ان کے لئے تصویر بنانے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ جبکہ اس عورت کی تصویر یقینی طور پر متعدد غیر محارم کے سامنے جاتی ہے اور یہ تعلیم کا حصول حکومت کے طرف سے لازم بھی نہیں ،البتہ جیسا کہ کہا جاتا ہے مسلمانوں کی خدمت کے لئے میڈکل کی تعلیم حاصل کرنا یا ایسی تعلیم جسکی مسلمانوں کو ضرورت ہے،فرض کفایہ کے درجہ میں کسی حد تک ہوسکتی ہے، لیکن باقی فیلڈمیں جن میں مرد کی موجودگی کافی ہے، عورتوں کی ضرورت نہیں ،ان کے لئے تصویر بنانے کا کیا حکم ہوگا؟ بینو بصراحةالبرھان والاجر عند الرحمن
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
۱۔جاندار کی پرنٹ شدہ تصویر اگرچہ جمہور فقہاء کے نزدیک حرام ہے،لیکن صرف چہرے کی کاغذ پر پرنٹ شدہ تصویر کی حرمت میں اختلاف ہے۔(شامیہ)اگرچہ بلاضرورت اس کے عدم جواز پر فتوی ہے،لیکن ضرورت،حاجت بلکہ شرعا معتبر(جائز) مصالح ومقاصد کے لیے اس کی گنجائش کا فتوی دیا جاتاہے،اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بچیوں کی کھلونوں کی انکی مادری تربیت کے مقصد کے پیش نظر اجازت منقول ہے اورمتعلقہ عمومی تعلیم وتربیت بھی اسی قبیل سے ہے۔
۲۔خواتین کے لیے غیر متعلقہ فنون اورشعبوں میں تعلیم حاصل کرنے یا جانے کے لیے تصویر بنانا جائز نہیں، البتہ جن شعبوں میں موجودہ زمانے کے حالات اور تقاضوں کے پیش نظرخواتین کی مؤثر نمائندگی بھی ضروری ہوتو ان میں جانے کے لیے بھی خواتین اسکارف کے ساتھ صرف چہرے کی تصویر بناسکتی ہیں،مثلا فورسز اور پولیس وغیرہ۔
حوالہ جات
فتح الباري لابن حجر (10/ 527)
عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كنت ألعب بالبنات عند النبي صلى الله عليه وسلم، وكان لي صواحب يلعبن معي، «فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل يتقمعن منه، فيسربهن إلي فيلعبن معي»
فتح الباري لابن حجر (10/ 527)
واستدل بهذا الحديث على جواز اتخاذ صور البنات واللعب من أجل لعب البنات بهن وخص ذلك من عموم النهي عن اتخاذ الصور وبه جزم عياض ونقله عن الجمهور وأنهم أجازوا بيع اللعب للبنات لتدريبهن من صغرهن على أمر بيوتهن وأولادهن قال وذهب بعضهم إلى أنه منسوخ واليه مال بن بطال
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 647)
قال القهستاني: وفيه إشعار بأنه لا تكره صورة الرأس، وفيه خلاف كما في اتخاذها كذا في المحيط،
الموسوعة الفقهية الكويتية (12/ 113)
ثامنا: التصوير للمصلحة كالتعليم وغيره:
لم نجد أحدا من الفقهاء تعرض لشيء من هذا، عدا ما ذكروه في لعب الأطفال: أن العلة في استثنائها من التحريم العام هو تدريب البنات على تربية الأطفال كما قال جمهور الفقهاء، أو التدريب واستئناس الأطفال وزيادة فرحهم لمصلحة تحسين النمو كما قال الحليمي، وأن صناعة الصور أبيحت لهذه المصلحة، مع قيام سبب التحريم، وهي كونها تماثيل لذوات الأرواح. والتصوير بقصد التعليم والتدريب و نحوهما لا يخرج عن ذلك.
نواب الدین
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
۱۹ذیقعدہ ۱۴۴۲ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | نواب الدین | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |