021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غصے میں کہنا "میں تمہیں آزاد کرتا ہوں”
73507طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

میرا نام شازیہ ہے،میرے شوہر نے مجھے دو بار جب طلاق دی تھی اس وقت وہ نشے کی حالت میں تھے،لیکن انہوں نے طلاق دے دی تھی،اس میں وقفہ تھا جیسے دو سے تین سال بعد دوسری بار طلاق کا لفظ بولا تھا،اس کے بعد ہمارا دوبارہ نکاح ہوا تھا،اب تیسری بار انہوں نے مجھے یہ کہا تھا کہ میں تمہیں آزاد کرتا ہوں/آزاد کیا،یہ الفاظ انہوں نے دو تین بار دہرائےہیں۔

یہ چیز مجھے بھی صحیح سے یاد نہیں کہ الفاظ کیا تھے،مگر طلاق کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا،جب انہوں نے یہ کہا اس وقت میرے دونوں بچے میرے پاس تھے جن میں سے ایک میری بیٹی ہے جس کی عمر سترہ سال ہے اور دوسرا بیٹا ہے جس کی عمر چودہ سال ہے،انہیں بھی ٹھیک سے یاد نہیں اور جب انہوں نے آزاد کرنے کا کہا تھا اس وقت وہ بہت غصے میں تھے،اس کے بعد میں رہنے کے لیے اپنے شوہر کے گھر والوں کے پاس چلی گئی،میرے شوہر کو یہ بات اچھی نہ لگی،انہوں نے اپنے بہن بھائیوں سے غصے میں یہ بات بولی کہ یہ میری طرف سے آزاد ہے اور تم سب کے لیے حرام ہے،وہ اس بات پر چڑگئے تھے کہ ہم وہاں کیوں گئے۔

شوہر کا بیان:

میں اپنی بیوی کے بیان سے متفق ہوں،اس نے بالکل صحیح لکھا ہے،اب میں آپ کو اپنی نیت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں، جیساکہ میں نے پہلے دو طلاقیں دیں،اس میں میں نے طلاق کا لفظ بولا تھا جس حالت میں بھی تھا،مجھے یاد ہے میں نے طلاق کا لفظ استعمال کیا تھا اور اب بھی میرے اختیار میں تھا کہ میں لفظ طلاق کا استعمال کرتا،لیکن میں نے نہ ہی طلاق استعمال کیا اور نہ ہی نکاح سے آزادی کا لفظ استعمال کیا،بلکہ صرف آزاد کا لفظ استعمال کیا ہے جو کہ گھریلو حقوق سے آزاد کرنے کی نیت سے استعمال کیا تھا،اگر میری طلاق کی نیت ہوتی تو میں اپنی بیوی کے گھر والوں کو بتادیتا کہ میں نے اپنی بیوی کو اپنے نکاح سے آزاد کردیا ہے،جس رات یہ واقعہ ہوا اس کے اگلے دن بھی میری بیوی میرے گھر پر ہی تھی،نہ میں نے اس سے کہا کہ تم یہاں کیوں ہو،رات کو کھانا بناکر دیا،پھر اگلے دن مجھے بتائے بغیر میرے والد صاحب کے گھر میرے بچوں کو لے کر چلی گئی،میں جب اپنے والد صاحب کے گھر گیا تو میرا چھوٹا بھائی جس نے میری بیوی کو ورغلایا تھا،اسے میں نے غصے میں کہہ دیا کہ میری بیوی تم سب کے لیے نامحرم ہے،اس کا مطلب غلط انداز میں میرے والد صاحب کے آگے پیش کیا گیا کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے،یہ سب میرے بھائی کی سازش ہے کہ جو نہیں چاہتا کہ میں اپنے والد صاحب کے نظر وں میں اچھا کہلاؤں،میں حلفیہ قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ سب سچ ہے اور میری بیوی کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہے کہ اس نے غلط کیا۔

تنقیح: سائل سے معلوم ہوا کہ ان کے عرف میں لفظ آزاد صرف طلاق کے لیے متعین نہیں ہے،بلکہ دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

لفظ آزاد اپنی اصل وضع کے لحاظ سے طلاق کے کنایہ الفاظ میں سے ہے،جس سے عام نارمل حالت  میں طلاق واقع ہونے کا مدار نیت پر ہوتا ہے،البتہ ٕغصے اور مذاکرہ طلاق کی حالت میں اس سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،تاہم اگر یہ لفظ بولنے والے شخص کی برادری اور وہاں کےلوگوں  کے عرف میں طلاق کے معنی کے لیے اس طرح متعین ہوجائے کہ جب بھی شوہر بیوی کے سامنے یہ لفظ بولے تو اس سے طلاق ہی کا معنی مراد لیا جاتا ہو،اس کے علاوہ کوئی اور معنی مراد نہ ہوتا ہو تو پھر اس صورت میں اس پر صریح طلاق کا حکم لگے گا،یعنی اس کے ذریعے طلاق رجعی واقع ہوگی۔

مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق مذکورہ صورت میں ایک طلاق بائن مزید واقع ہوچکی ہے،کیونکہ شوہر نے بیوی کو غصے کی حالت میں یہ الفاظ بولے ہیں اور غصے کی حالت میں ان الفاظ سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

نیز چونکہ دو طلاقیں شوہر پہلے ہی دے چکا ہے،اس لیے اب تیسری طلاق کے بعد بیوی شوہر پر حرمت غلیظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے اور اب موجودہ حالت میں آپ دونوں کا دوبارہ نکاح ممکن نہیں رہا۔

البتہ اگر یہ  مطلقہ عورت عدت گزارنے کے بعد کسی اور سے نکاح کرلے اور ان دونوں میں ازدواجی تعلقات بھی قائم ہوجائیں،اس کے بعد دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ کسی وجہ سے اس عورت کو طلاق دیدے،پھر عورت عدت گزارے،عدت گزرنے کے بعد اس عورت کا اپنے سابق شوہر سے دوبارہ نکاح ممکن ہوسکے گا۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية "(1/ 374):
" ثم الكنايات ثلاثة أقسام (ما يصلح جوابا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري (وما يصلح جوابا وشتما) خلية برية بتة بتلة بائن حرام والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا فإنه لا يجعل طلاقا كذا في الكافي وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لا يصدق فيها كذا في الهداية".
المبسوط للسرخسي (6/ 147)
ولو قال أنت طالق من وثاق لم يقع عليها شيء لأنه بين بكلامه موصولا مراده من قوله طالق والبيان المغير صحيحا موصولا وقد بيناه في الإقرار وإن قال عنيت بقولي طالقا من عمل من الأعمال ففي رواية الحسن عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى هذا والأول سواء وفي ظاهر الرواية هناك لا يدين في القضاء ولا فيما بينه وبين الله تعالى لأن لفظ الطلاق لا يستعمل في العمل حقيقة ولا مجازا إلا أن يذكره موصولا فيقول أنت طالق من عمل كذا فحينئذ هي امرأته فيما بينه وبين الله تعالى ويقع الطلاق في القضاء لأنه ليس ببيان من حيث الظاهر لما لم يكن ذلك اللفظ مستعملا فيه وكل ما لا يدينه القاضي فيه فكذلك المرأة إذا سمعت منه أو شهد به شاهدا عدل لا يسعها أن تدين الزوج فيه لأنها لا تعرف منه إلا الظاهر كالقاضي.
"رد المحتار" (3/ 308):
"(قوله :لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح، وقيد بقوله الذي لا يلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولا أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال، وحينئذ فيكون المراد بالصريح في الجملة الثانية أعني قولهم فالبائن يلحق الصريح لا البائن هو الصريح الرجعي فقط دون الصريح البائن".
الدر المختار للحصفكي (3/ 346)
وألفاظ التفويض ثلاثة: تخيير، وأمر بيد، ومشيئة.
(قال لها اختاري أو أمرك بيدك ينوي) تفويض (الطلاق) لانها كناية فلا يعملان بلا نية
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :" ( قوله لأنهما كناية ) أي من كنايات التفويض شرنبلالية ( قوله فلا يعملان بلا نية ) أي قضاء وديانة في حالة الرضا ، أما في حالة الغضب أو المذاكرة فلا يصدق قضاء في أنه لم ينو الطلاق لأنهما مما تمحض للجواب كما مر ولا يسعها المقام معه إلا بنكاح مستقبل لأنها كالقاضي ، أفاده في الفتح والبحر" .

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

17/ذی قعدہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب