021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ٹورنامنٹ کی انٹری فیس کا حکم
74695سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں،جو آج کل اکثر کھیلوں کے ٹورنامنٹ منعقد کیے جاتے ہیں اور ان میں شمولیت کے لیے انٹری فیس رکھی جاتی ہے ،اس انٹری فیس سے جیتنے والی ٹیم کو انعام دیے جاتے ہیں ، اور ابتدائی مراحل میں ہار جانے  والی ٹیموں کو کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔بظاہر یہ جوئے کی ایک صورت بنتی ہے آیا یہ واقعتاً جوا ہے یا اس میں جواز کی کوئی صورت بنتی ہے؟ بینوا توجروا

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کھیلوں کےٹورنامنٹ کی مروجہ صورت جس میں ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی تمام  ٹیموں کی مشترک طور پر جمع کردہ  رقم ،اخراجات منہا کر کے جیتنے والی ٹیم کو دی جاتی ہے، ناجائز ہے اور یہ صورت شرعاً قمار یعنی جوئے  میں داخل ہے اور حرام ہے ۔ تاہم درست صورت یہ ہو سکتی ہے کہ یا تو  ٹورنامنٹ کروانے والے اپنی طرف سے یا کسی شخص یا ادارے کی طرف سےسپانسر شپ کے ذریعہ انعامات کا انتظام کریں  تو یہ صورت بھی جائز ہے ،اس کے علاوہ یہ بھی جواز کی صورت ہے کہ ان ٹیموں کے ساتھ  ایک ایسی ٹیم کو بھی مقابلے میں شریک کیا جائے ، جس کا   جیتنا  بھی ممکن ہو اور اس ٹیم سے  انٹری فیس وصول نہ کی جائے، یا پھر انہی ٹیموں میں سے ایک مضبوط ٹیم کو فیس سے استثناء دے دیا جائے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمۃ اللہ علیہ: (ولا بأس بالمسابقة في الرمي والفرس) والبغل والحمار... وعند الثلاثة لا يجوز في الأقدام أي بالجعل أما بدونه فيباح في كل الملاعب كما يأتي (حل الجعل إن شرط المال) في المسابقة (من جانب واحد وحرم لو شرط) فيها (من الجانبين) لأنه يصير قمارا (إلا إذا أدخلا ثالثا) محللا (بينهما) بفرس كفء لفرسيهما يتوهم أن يسبقهما وإلا لم يجز ثم إذا سبقهما أخذ منهما وإن سبقاه لم يعطهما وفيما بينهما أيهما سبق أخذ من صاحبه. (رد المحتار:6/402)
قال العلامۃ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ:قال - رحمه الله - (وحرم شرط الجعل من الجانبين لا من أحد الجانبين) لما روى ابن عمر - رضي الله عنهما - «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - سبق بالخيل وراهن» ومعنى شرط الجعل من الجانبين أن يقول إن سبق فرسك فلك علي كذا، وإن سبق فرسي فلي عليك كذا وهو قمار فلا يجوز؛ لأن القمار من القمر الذي يزاد تارة وينقص أخرى وسمي القمار قمارا؛ لأن كل واحد من القمارين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه ويجوز أن يستفيد مال صاحبه فيجوز الازدياد والنقصان في كل واحدة منهما فصار ذلك قمارا وهو حرام بالنص ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد بأن يقول إن سبقتني فلك علي كذا، وإن سبقتك فلا شيء لي عليك؛ لأن النقصان والزيادة لا يمكن فيهما وإنما في أحدهما يمكن الزيادة وفي الأخرى النقصان فلا يكون مقامرة؛ لأن المقامرة مفاعلة منه فيقتضي أن يكون من الجانبين وإذا لم يكن في معناه جاز استحسانا.
(البحر الرائق:8/554)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ:قال الزيلعي: وإنما جاز هذا لأن الثالث لا يغرم على التقادير كلها قطعا ويقينا وإنما يحتمل أن يأخذ أو لا يأخذ فخرج بذلك من أن يكون قمارا، فصار كما إذا شرط من جانب واحد، لأن القمار هو الذي يستوي فيه الجانبان في احتمال الغرامة على ما بينا اهـ.
(رد المحتار:6/403)

محمد طلحہ شیخوپوری

دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی

 23 ربیع الثانی/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب