74681 | علم کا بیان | قرآن کریم کی تعظیم اور تلاوت کا بیان |
سوال
سوال:کیافرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مطالعے کے دوران اکثر کتابوں میں عبارت کےدرمیان قرآنی آیات آجاتی ہیں،خواہ وہ کتب عربی ہوں یاغیرعربی،نصابی ہوں یاغیرنصابی، دینی ہوں یاغیردینی جیسےکوئی ناول وغیرہ توان آیات قرآنی سےپہلےتعوذو تسمیہ پڑھنے کا حکم وضابطہ کیا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ناول ودیگرکتب کےمطالعےکےدوران قرآنی آیات کےساتھ تعوذوتسمیہ پڑھناشرعاضروری نہیں،کیونکہ اس سےمقصدقرآنی آیات کی تلاوت مقصودنہیں ہوتی،تعوذ وتسمیہ اس وقت مسنون ہےجب قرآنی آیات کوباقاعدہ تلاوت کی نیت سےپڑھاجائےاگرتلاوت کی نیت نہ ہو،مثلابطوردعاء کوئی آیت پڑھی جائےتواس سےچونکہ تلاوت کرنامقصدنہیں ہوتاتوتعوذوتسمیہ پڑھنابھی ضروری نہیں،اسی طرح کوئی کام شروع کرتےوقت بسم اللہ پڑھی جائےتواس سےچونکہ افتتاح مقصدہوتاہے(نہ کی تلاوت)اس لیےاس کےساتھ بھی تعوذ پڑھناضروری نہیں۔
حوالہ جات
"الفتاوى الهندية" 42 / 448:إذا أراد أن يقول بسم الله الرحمن الرحيم ، فإن أراد افتتاح أمر لا يتعوذ ، وإن أراد قراءة القرآن يتعوذ ، كذا في السراجية ۔
"الدر المختار للحصفكي" 1 / 186:(و) يحرم به (تلاوة قرآن) ولو دون آية المختار (بقصده) فلو قصد الدعاء أو الثناء أو افتتاح أمر أو التعليم ولقن كلمة كلمة حل في الاصح۔
"حاشية رد المحتار" 1 / 186:قوله: (فلو قصد الدعاء) قال في العيون لابي الليث: قرأ الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم ير القراءة لا بأس به وفي الغاية: أنه المختار، واختاره الحلواني۔الخ۔۔۔وبعداسطرقوله: (حتى لو قصد الخ) تفريع على مضمون ما قبله من أن القرآن يخرج عن القرآنية بقصد غيره۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی
24/ربیع الثانی 1443 ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |