021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض کی ادائیگی کی نیت سے دی گئی رقم کے بارے میں امانت ہونے کا دعوی کرنا
74625خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

ہمارے دو بھائیوں کے درمیان ایک کاروباری تنازع چل رہا ہے،جس کی تفصیل یہ ہے کہ فریق اول محمد ربانی نے جو کہ مدعی ہے فریق دوم محمد ولی کو جو کہ مدعی علیہ ہے جون 2015 میں 18000 ہزار ڈالر بطور قرض حسنہ دیا تھا،اس وقت ڈالر کا نرخ ایک سو دو روپے تھا،آٹھ نو مہینے بعد 2016 میں فریق دوم نے اپنی طرف سے فریق اول کو 1830000 روپے دیا۔

اب دونوں فریقوں  میں اس بات پر تنازع چل رہا ہے کہ فریق اول دعوی کرتا ہے کہ فریق دوم نے مجھے جو رقم یعنی اٹھارہ لاکھ تیس ہزار روپے دی ہے وہ میرے پاس موجود ہے،میں نے ان سے ابھی تک ڈالر نہیں خریدے،اس لیے کہ میں نے کئی بار فریق دوم سے ڈالر خریدنے کی اجازت مانگی،لیکن فریق دوم نے منع کیا،اب چونکہ ڈالر مہنگا ہوگیا ہے اور فریق دوم کے دیئے گئے پیسوں سے 18000 ڈالر نہیں خریدے جاسکتے،اس لیے مجھے مزید رقم دی جائے۔

فریق دوم کہتا ہے کہ میں نے پیسے دیتے وقت ڈالر کے نرخ 103 کے حساب سے آپ کو 1830000 روپے اسی مقصد کے لیے دیئے تھے کہ تم اس ڈالر خرید لو اور کئی بار بولا بھی کہ ڈالر خرید لو،تو آپ نے کیوں نہیں خریدے،بلاوجہ میری رقم چھ سال تک استعمال کرتے رہے۔

اب فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہمارے تنازع کا شریعت کے مطابق جو حل نکلے گا ہم دونوں اس کے پابند ہوں گے،لہذا آپ حضرات سے التماس ہے کہ شریعت کی روشنی میں ہر فریق کے حق وضاحت کردیں۔

تنقیح: سائل سے فون پر وضاحت کے ذریعے معلوم ہوا کہ دونوں کا تنازعہ اس بنیاد پر ہے کہ فریق اول محمد ربانی کا کہنا ہے کہ تم نے یہ رقم مجھے بطورِ امانت دی تھی،جبکہ فریق ثانی محمد ولی کا کہنا ہے کہ میں نے قرض کی ادائیگی کی نیت سے دی تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر فریق اول محمد ربانی کے پاس اپنے دعوے پر شرعی شہادت (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں) موجود ہو جو اس بات کی گواہی دیں کہ محمد ولی نے 2016 میں دی جانے والی رقم محمد ربانی کو بطور امانت دی تھی تو پھر محمد ربانی کی بات معتبر ہوگی،لیکن اگر فریق اول محمد ربانی کے پاس اپنے دعوے پر شرعی شہادت نہ ہو تو پھر فریق دوم محمد ولی کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی اور محمد ربانی کو مزید رقم طلب کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
"الأشباه والنظائر لابن نجيم" (ص: 226):
"القول للمملك في جهة التمليك، فلو كان عليه دينان من جنس واحد فدفع شيئا فالتعيين للدافع إلا إذا كان من جنسين لم يصح تعيينه من خلاف جنسه، ولو كان واحدا فأدى شيئا وقال هذا من نصفه، فإن كان التعيين مفيدا بأن كان أحدهما حالا أو به رهن أو كفيل والآخر لا، صح، وإلا فلا.
ولوادعى المشتري أن المدفوع من الثمن وقال الدلال من الأجرة فالقول للمشتري ولو ادعى الزوج أن المدفوع من المهر، وقالت هدية فالقول له إلا في المهيإ للأكل كذا في جامع الفصولين".
"المبسوط للسرخسي "(5/ 194):
"(قال:) وإذا فرضت النفقة لها على زوجها ولها عليه شيء من مهرها فأعطاها شيئا من ذلك فقال الزوج هو من المهر وقالت المرأة بل هو من النفقة فالقول قول الزوج أنه من المهر، وكذلك هذا في جميع قضاء الديون إذا كان من وجوه مختلفة؛ لأنه هو المملك فالقول قوله في بيان جهة التمليك وهو المحتاج إلى تفريغ ذمته فالقول قوله في أنه تفرغ ذمته بهذا الأداء من كذا دون كذا".
"الدر المختار " (3/ 151):
"(ولو بعث إلى امرأته شيئا ولم يذكر جهة عند الدفع غير) جهة (المهر) كقوله لشمع أو حناء ثم قال إنه من المهر لم يقبل قنية لوقوعه هدية فلا ينقلب مهرا (فقالت هو) أي المبعوث (هدية وقال هو من المهر) أو من الكسوة أو عارية (فالقول له) بيمينه والبينة لها".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

24/ربیع الثانی1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب