74714 | طلاق کے احکام | تین طلاق اور اس کے احکام |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
زوجین میں طلاق ہونے کے بعد اگرنابالغ بچی ماں کی پرورش میں ہو تواس سے باپ کی ملاقات کا طریقہ اوروقت کیاہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
والدکو شرعا اپنے بیٹی سے ملاقات کا حق حاصل ہے جب بھی وہ چاہیے،والد کو بچی سےدور رکھنا شرعاً بچی اور اس کے والد دونوں کے ساتھ ظلم ہوگااوریہ قطعِ رحمی کے زمرے میں آئےگا،اورپاکستان میں اس ظلم کوروکنے کےلیےباقاعدہ ایک قانون بنام "گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ 1890ء"بھی موجودہےجس کے تحت طلاق کےبعدوالدکو بچوں سےملنے کےلیے کچھ وقت دیاجاتاہے،لہذا مسئولہ صورت میں بچی کو ان کے والد سےملنے سےروکناشرعاًوقانوناً دونوں طرح غلط ہوگا۔
حوالہ جات
وفی الھدایة:
(وإذا أرادت المطلقة أن تخرج بولدها من المصر فليس لها ذلك) لما فيه من الإضرار بالأب."(هداية، 2/436 ط: المكتبة العلمية)
وفی سنن أبى داود - (2 / 60)
1698 - حدثنا مسدد حدثنا سفيان عن الزهرى عن محمد بن جبير بن مطعم عن أبيه يبلغ به النبى -صلى الله عليه وسلم- قال « لا يدخل الجنة قاطع رحم ».
الفتاوى الهندية (1/ 543)
الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي.
فتاوی عالمگیری قدیم ۱: ۵۴۱،مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند
أحق الناس بحضانة الصغیر حال قیام النکاح، أو بعد الفرقة الأم .
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 566)
(والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 568)
(بلغت الجارية مبلغ النساء، إن بكرا ضمها الأب إلى نفسه) إلا إذا دخلت في السن واجتمع لها رأي فتسكن حيث أحبت حيث لا خوف عليها (وإن ثيبا لا) يضمها (إلا إذا لم تكن مأمونة على نفسها) فللأب والجد ولاية الضم لا لغيرهما كما في الابتداء بحر عن الظهيرية.
.سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
30/4/1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |