021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بینک میں امامت یا مؤذنی پر تنخواہ کا حکم
73279اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان کرام اس مسئلہ کے متعلق کہ(۱) بینک(اسٹیٹ یا نیشنل )میں امامت کرنا کیسا ہے؟ اور(۲) اس پر بینک کی طرف سے یا بینک ملازمین کی طرف سے آپس میں چندہ کرکے مؤذن یا امام کو تنخواہ ادا کریں تو وہ تنخواہ لینا جائزہے یا نہیں؟کیااس کا حکم گارڈ کی نوکری کی طرح ہو گا؟دونوں مسئلوں میں رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱۔اگر نماز کی جگہ سودی یا حرام مال سے تیار نہ کی گئی ہو تو امامت جائز ہے۔

۲۔جو بینک ملازم بینک میں سودی معاملات نہ کرتا ہو،اس کی تنخواہ بعض اہل علم کے نزدیک جائز ہے، بلکہ جو ملازم سودی معاملات کے علاوہ غیر سودی معاملات بھی کرتا ہو تو اس قدر اس کی تنخواہ بھی جائز ہے،لہذا مؤذن اور امام کے لیے بھی بینک سے  یا بینک کے ملازمین  سے تنخواہ لینا جائز ہے۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۹شوال۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب