021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیر متعینہ زمین کوفروخت کرنا
74808خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں،ایک شخص زمین خریدتے وقت ایڈوانس رقم ادا کرتاہے،یعنی اگر دس لاکھ کی زمین ہے تو ایک لاکھ ایڈوانس اداکرتا ہے،اور اس کے ساتھ باقی رقم مقررہ مدت میں ادا کرنے کا معاہدہ ہوتاہے،اگر مقررہ مدت میں مطلوبہ رقم ادا نہ کی گئی یعنی 60فی صد سے کم اداء کیا ہو،تو اس سے کہا جاتا ہےکہ آپ کا پلاٹ اس بلاک میں ہے یعنی اس بلاک میں کل 70 پلاٹ ہوتے ہیں،تو ان میں سےایک آپ کا بھی ہوگا اور اس میں حدود اربعہ بھی نہیں بتائی جاتی،اور پلاٹ نمبربھی متعین کرکے نہیں بتایا جاتا ہے،صرف سمت بتایا جاتا ہے ۔ لیکن جب مشتری 60فی صد قیمت اداء کرلیتا ہے تو اس کو پلاٹ نمبراورحدوداربعہ متعین کر کےبتایا جاتا ہے کہ یہ آپ کا پلاٹ ہے، لیکن 60 فی صد سے کم قیمت اداء کرنے میں ایسا نہیں ہوتا ہے ۔شرعاًیہ معاملہ صحیح ہے یا نہیں ؟؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خریدوفروخت کےمعاملےمیں شرعاًیہ لازم ہےکہ مبیع(یعنی خریدی جانےوالی چیزجیسےکہ صورت مسئولہ میں زمین ہے)کی ایسی تعیین ہوجس سےبعدمیں خریداراورفروخت کنندہ کےدرمیان کسی قسم کے نزاع (جھگڑےاور اختلاف)کااندیشہ نہ ہو ۔

صورت مسئولہ میں ایک لاکھ ایڈوانس لےکر خریداراورفروخت کنندہ کےدرمیان خریدوفروخت کا معاملہ مکمل ہوجاتاہے،اس طورپرکہ خریداراورفروخت کنندہ کےدرمیان کسی متعین بلاک میں 120 گزکی غیرمتعین (مشترک،مشاع)جگہ کی خرید وفروخت کا معاملہ ہوتاہے،مگرزمین کی جوانب اربعہ کی تعیین کا مرحلہ مقررہ مدت میں60 فیصد رقم اداکرنے پرمشروط ہوتی ہے،اوراگرمقررہ مدت میں 60 فیصد سےکم رقم اداءکی گئی،توزمین کی تقسیم مزیدمؤخر کردی جاتی ہے۔ مذکورہ دونوں صورتیں(مقررہ مدت میں60فیصد رقم اداءکی جائےیامقررہ مدت میں 60 فیصدرقم اداء نہ کی جائے)رائج اورمشہورہونےکی وجہ سےاورضمناًخریدارکابلڈرزکوقواعدوضوابط کےمطابق پلاٹس کی جوانب اربعہ کی تعیین اورمشترکہ ملکیت کی تقسیم کا وکیل بنانےکی وجہ سےشرعاًجائز ہوگی۔کیوں کہ خریدارذہنی طورپرآمادہ ہوتاہےکہ پلاٹس کی تقسیم کےوقت میرےپلاٹ کامحل وقوع کچھ بھی ہوسکتاہے،لہٰذااس طرح سےخریدوفروخت کامعاملہ مشہوراوراختلاف کا سبب نہ بننے کی وجہ سےجائز ہے۔البتہ اگر کہیں اس قسم کی خریدوفروخت کامعاملہ مشہورنہ ہویاخریدوفروخت کےبعد پلاٹس کی تقسیم وتعیین،خریداراورفروخت کنندہ کےدرمیان آپس میں اختلاف اورجھگڑےکاباعث ہو،توابتداءہی میں خریدو فروخت کے معاملہ کےوقت  پلاٹس کی جوانب اربعہ کی تعیین ضروری ہے۔کیوں کہ شریعت نےخریدو فروخت کےمعاملےمیں ہراس قسم کی جہالت سےمنع کیاہےجوبعدمیں خریداراورفروخت کنندہ کےدرمیان آپس میں اختلاف اورجھگڑےکا سبب بنتی ہو۔

البتہ اس قسم کےپلاٹس اوران کے فائل کی زمین کی حدوداور جوانب اربعہ کی تعیین سےپہلےآگے خریدوفروخت جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات
 (الدررالمختار وحاشیۃ ابن عابدین4/545)
(قوله: من دار أو حمام) أشار إلى أنه لا فرق بين ما يحتمل القسمة وما لا يحتملها ح. (قوله: وصححاه إلخ) ذكر في غاية البيان نقلا عن الصدر الشهيد، والإمام العتابي أن قولهما، بجواز البيع إذا كانت الدار مائة ذراع، ويفهم هذا من تعليلها أيضا حيث قالا: لأن عشرة أذرع من مائة ذراع عشر الدار فأشبه عشرة أسهم من مائة سهم، وله أن البيع وقع على قدر معين من الدار لا على شائع؛ لأن الذراع في الأصل اسم لخشبة يذرع بها، واستعير ههنا لما يحله وهو معين لا مشاع؛ لأن المشاع لا يتصور أن يذرع، فإذا أريد به ما يحله، وهو معين لكنه مجهول الموضع بطل العقد درر قلت:ووجه كون الموضع مجهولا أنه لم يبين أنه من مقدم الدار، أو من مؤخرها، وجوانبها تتفاوت قيمة فكان المعقود عليه مجهولا جهالة مفضية إلى النزاع، فيفسد كبيع بيت من بيوت الدار كذا في الكافي عزمية۔
(البحر الرائق شرح کنز الدقائق5/315)
(قوله وفسد بيع عشرة أذرع من دار لا أسهم) ، وهذا عند أبي حنيفة، وقالا هو جائز كما لو باع عشرة أسهم من دار ومبنى الخلاف في مؤدى التركيب فعندهما شائع كأنه باع عشر مائة وبيع الشائع جائز اتفاقا وعنده مؤداه قدر معين والجوانب مختلفة الجودة فتقع المنازعة في تعيين مكان العشرة فيفسد البيع فلو اتفقوا على مؤداه لم يختلفوا فهو نظير اختلافهم في نكاح الصابئة.
(فقہ البیوع1/376)
بيع قطعة غير معينة من الأرض: وقد تباع قطعة من الأرض مقدرة بالخطوات أو الأمتار ، ولكن يترك تعيينها للمستقبل وهذا يكون عادة في أرض واسعة تشتريها شركة ، ثم تبيع قطعاتها لعامة الناس تقدر بالخطوات أو الأمتار . فمثلاً : كل قطعة منها بقدر خمسمائة متر ، ولكن لا يتعين محل تلك الخمسمائة عند الشراء ۔۔۔۔وتخرج هذه المسئلة . على  ما ذكره الفقهاء الحنفية من أن من باع عشرة أذرع غير معينة من دار ، فإن هذا البيع فاسد عند . الإمام أبي حنيفة رحمه الله تعالى ، لجهالة القدر المبيع ، فإن جوانب الدار مختلفة الجودة ، فتقع المنازعة في تعيين المبيع . وقال صاحباه : يجوز ذلك على أساس أنه بيع لحصة مشاعة من الدار ، وبيع المشاع جائز ۔۔۔ وعلى هذا ، فإن بيع قطعة غير معينة من جملة القطعات لا يجوز عند الإمام أبي حنيفة رحمه الله تعالى ، ويجوز عند صاحبيه . والظاهر أنه إن كانت جهالة التعيين تفضى إلى المنازعة ، فالأخذ بقول الإمام أبي حنيفة أولى ، وإن لم تكن مفضية إلى المنازعة ، فقول الصاحبين أولى بالأخذ ۔
(الدررالمختار وحاشیۃ ابن عابدی6/53)
والجهالة ليست بمانعة لذاتها بل لكونها مفضية إلى النزاع۔
(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع4/180)
(ومنها) أن يكون المبيع معلوما وثمنه معلوما علما يمنع من المنازعة.
فإن كان أحدهما مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة فسد البيع، وإن كان مجهولا جهالة لا تفضي
إلى المنازعة لا يفسد؛

محمدعمربن حسین احمد

دارالافتا ءجامعۃالرشیدکراچی

5ربیع الثانی 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر ولد حسین احمد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب