021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دکان سمیت کاروبار بچوں کو دینا اور ترکہ کی تقسیم
74776میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے والد صاحب کا 1996ء میں انتقال ہوا، انہوں نے ورثاء میں ایک بیوہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑیں، ترکہ میں ان کا یک گھر تھا، جس کے متعلق انہوں نے زندگی میں کچھ نہیں کہا، اس کے علاوہ ان کی ایک دکان تھی، جس میں وہ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے، جو انہوں نے زندگی میں کاروبار سمیت اپنے دو بیٹوں کے حوالے کر دی تھی، دو بیٹوں میں سے ایک کے تین بیٹے ہیں، دوسرے کی اولاد نہیں، اس صورت میں وراثت کی شرعی تقسیم کیسےہو گی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے والدمرحوم نے بوقت ِانتقال اپنی ملکیت میں منقولہ وغیر منقولہ مال،جائیداد،سونا،چاندی،نقدی اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا جو کچھ ساز وسامان چھوڑا ہے اور مرحوم  کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب  الادء ہو، يہ  سب مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں ،البتہ اگر کسی نے بطور تبرع ادا کر دیئے ہوں تو پھر یہ اخراجات نکالنے کی ضرورت نہیں ۔ اس کے بعد مرحوم کا  وہ قرض  ادا کیا جائے  جس کی ادئیگی مرحوم کے ذمہ  واجب ہو۔ اس کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ  میں سے ایک تہائی(3/1) تک اس پر عمل کیا جائے۔اس کے بعد جو ترکہ باقی بچے   اس کواڑتالیس(48) حصوں میں  برابرتقسیم کرکے  مرحوم کی بیوی کو چھ (6) حصے، ہر بیٹے کو چودہ (14) حصے اور ہر بیٹی کوسات(7) حصے دیے جائیں، ہر وارث كے حصہ کی تفصیل ذیل کے  نقشہ میں  ملاحظہ فرمائیں:

نمبر شمار

وارث

    عددی حصہ

    فيصدی حصہ

1

بیوی

6

12.5%

2

بیٹا

14

29.166%

3

بیٹا

14

29.166%

5

بیٹی

7

14.583%

6

بیٹی

7

14.583%

   واضح رہے کہ  مرحوم نے اپنی زندگی میں کاروبار سمیت جو دکان اپنے بیٹوں کے حوالے کی ہے، اس میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ یہ دکان اور کاروبار بطورِ ہبہ (ہدیہ) مالک بنا  کر دیے گئے تھے یا یہ کہ صرف کام سنبھالنے کے لیے معاونت کے طور پر کاروبار وغیرہ ان کے سپرد کیا گیاتھا، باقاعدہ مالک بنانے کا ارادہ نہیں تھا، ان دونوں صورتوں کا حکم علیحدہ علیحدہ ہے، جس کی تفصیل درج ذيل ہے:

 اگر یہ دوکان اور کاروبار مالک بنا کر دیے گئے تھے تو یہ میراث میں شامل نہیں ہوں گے، البتہ اس صورت میں آپ کے والد صاحب گناہ گار ہوئے ہیں، کیونکہ زندگی میں اولاد کو اس طرح کوئی پراپرٹی وغیرہ دینا دراصل ہبہ ہوتا ہے اور ہبہ میں اولاد کے درمیان برابری کرنا ضروری ہے، نیز اگر بیٹیوں کو بیٹوں کی بنسبت آدھا حصہ دے دیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے، اب چونکہ والد صاحب وفات پا چکے ہیں، اس لیے بیٹوں کو چاہیے کہ مذکورہ دکان اور کاروبار میں سے مرحوم کی بیٹیوں کو بھی تبرعاًحصہ دے دیں، تاکہ آپ کے والد مرحوم اخروی عذاب سے بچ جائیں اور اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بیٹوں کو بہت بڑا اجر ملے گا۔

اوراگر مذکورہ دکان اور کاروبار مالک بنا کر نہیں دیے گئے تھے تو اس صورت میں یہ دونوں چیزیں اور اس کاروبار سے حاصل شدہ نفع  میراث میں شامل ہو گا اور تمام ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوں گی، البتہ اس صورت میں دونوں بیٹوں نے اتنا عرصہ جومشترکہ  کاروبار میں محنت کی ہے ان کو اپنی محنت کے عوض اتنے عرصہ کی اجرتِ مثل (اس طرح کا کام کرنے پر معاشرے میں ماہانہ جو اجرت دی جاتی ہو۔)ملے گی،  البتہ بیٹوں نے اتنا عرصہ کاروبار سے اخراجات کی مد میں جو رقم وصول کی ہے وہ ان کی تنخواہ سے  منہا کی جائے گی۔

حوالہ جات
 القرآن الکریم : [النساء: 12]:
{وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ}
السراجی فی المیراث:(ص:19)، مکتبۃ البشری:
وأما لبنات الصلب فأحوال ثلاث: النصف للواحدۃ، والثلثان للإثنین فصاعدا، ومع الابن للذکر مثل حظ الأنثیین وھو یعصبھن۔
الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 230) دار الكتب العلمية، بيروت:
 استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم، وكذا لو أدخل رجلا في
حانوته ليعمل له استأجر شيئا لينتفع به خارج المصر فانتفع به في المصر، فإن كان ثوبا وجب الأجر وإن كان دابة لا.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 42) دار الفكر-بيروت:
(قوله فالعبرة لعادتهم) أي لعادة أهل السوق، فإن كانوا يعملون بأجر يجب أجر المثل وإلا فلا. (قوله اعتبر عرف البلدة إلخ) فإن كان العرف يشهد للأستاذ يحكم بأجر مثل تعليم ذلك العمل، وإن شهد للمولى فأجر مثل الغلام على الأستاذ درر۔
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (7/ 650) دار الكتب العلمية، بيروت:              
رجل يبيع شيئاً في السوق فاستعان بواحد من أهل السوق على بيعه، فأعانه، ثم طلب منه الأجر، فإن العبرة في ذلك لعادة أهل السوق، فإن كان عادتهم أنهم يعملون بأجر يجب أجر المثل، وإن كان عادتهم أنهم يعملون بغير أجر فلا شيء له.
 

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

9/جمادی الاولیٰ 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب