021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد میں دوسری جماعت کا حکم
74875نماز کا بیانامامت اور جماعت کے احکام

سوال

سوال یہ ہے کہ پہلی منزل پر عام دنوں میں نمازی جماعت کی نماز میں پورے ہوجاتے ہیں اور دوسری منزل خالی ہوتی ہے۔ پچھلے سال رمضان میں نمازی زیادہ ہونے کی وجہ سے دونوں منزلوں کی صفیں مکمل ہوگئیں تھیں، تو تیسری منزل پر بھی صف بچھانی پڑی، لیکن تیسری منزل پر اوپر چھت نہ ہونے کہ وجہ سے تیز دھوپ اور گرمی ہوتی تھی، جس کی وجہ سے  نمازی اوپر نہیں جاتے تھے۔ مسجد کمیٹی نے اس مسئلہ کے بارے میں ایک مفتی صاحب سے فتوی لیا جس میں ایسی صورت میں دوسری جماعت کی اجازت دی گئی تھی، تو پچھلے سال رمضان میں دو جماعتیں ہوتی رہیں اور پہلی جماعت میں صرف پہلی منزل پر نمازی ہوتے تھے اور دوسری منزل خالی ہوتی تھی، تو اس مسئلہ میں مفتی بہ قول کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

محلے کی ایسی مسجد جس میں پانچ وقت نماز ہوتی ہو اور امام اور مؤذن بھی مقرر ہوں، اس مسجد میں ایک مرتبہ محلہ والوں نے اذان  اور اقامت کے ساتھ نما زادا کر لی ہو، تو  اذان اور اقامت کے ساتھ دوسری جماعت کرانا یا بغیر اذان کے پہلی جماعت کی ہیئت پر دوسری جماعت  کرانا راجح قول کے مطابق مکروہ تحریمی ہے، البتہ ضرورت شدیدہ ہو تو بعض شرائط کے ساتھ گنجائش ہے۔ اس مسئلہ کی مزید تفصیل کے لیے حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب ؒ کا رسالہ "الوصیۃ الإخوانیۃ في حکم الجماعۃ الثانیۃ" ( احسن الفتاوی: 3/321) کو دیکھا جا سکتا ہے۔

سوال میں ذکر کردہ پیش آنے والے مسئلہ کا حل یہ ہے کہ اگر نمازی زیادہ ہوں، تو تیسری منزل پر شامیانے وغیرہ لگاکر دھوپ سے بچنے کا انتظام کر لیا جائے اور ایک  جماعت ہی کرائی جائے۔

حوالہ جات
ولو صلى في مسجد بأذان وإقامة هل يكره أن يؤذن ويقام فيه ثانيا؟ فهذا لا يخلو من أحد وجهين: إما أن كان مسجدا له أهل معلوم، أو لم يكن: فإن كان له أهل معلوم: فإن صلى فيه غير أهله بأذان وإقامة لا يكره لأهله أن يعيدوا الأذان والإقامة، وإن صلى فيه أهله بأذان وإقامة، أو بعض أهله يكره لغير أهله وللباقين من أهله أن يعيدوا الأذان والإقامة، وعند الشافعي لا يكره. (بدائع الصنائع: 1/153)
قال العلامۃ الکاساني رحمۃ اللہ: وفي المجتبى: ويكره تكرارها في مسجد بأذان وإقامة، وعن أبي يوسف: إنما يكره تكرارها بقوم كثير، أما إذا صلى واحد بواحد واثنين فلا بأس به، وعنه لا بأس به مطلقا إذا صلى في غير مقام الإمام، وعن محمد: إنما يكره تكرارها على سبيل التداعي، أما إذا كان خفية في زاوية المسجد لا بأس به. (بدائع الصنائع: 1/367)
قال العلامۃ الحصكفي رحمۃ اللہ: ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.
قال العلامۃ ابن عابدین رحمۃ اللہ: قولہ:( ويكره): أي تحريما لقول الكافي لا يجوز والمجمع لا يباح وشرح الجامع الصغير إنه بدعة كما في رسالة السندي (قوله بأذان وإقامة إلخ) عبارته في الخزائن: أجمع مما هنا ونصها: يكره تكرار الجماعة في مسجد محلۃ بأذان وإقامة. ...........وقدمنا في باب الأذان عن آخر شرح المنية عن أبي يوسف: أنه إذا لم تكن الجماعة على الهيئة الأولى لا تكره وإلا تكره، وهو الصحيح، وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة كذا في البزازية انتهى. وفي التتارخانية عن الولوالجية: وبه نأخذ. (رد المحتار: 1/553)

محمد ابراہیم شیخا

10/جمادی الاولی/1443ھ

دار الافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد ابراہیم شیخا بن محمد فاروق شیخا

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب