75063 | زکوة کابیان | زکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان |
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بندہ ایک دینی ادارے کا مہتمم ہے۔یہ ادارہ عوام کی زکات اور عطیات سے چلتا ہے۔بسا اوقات بیرون ملک رہائشی حضرات سے زکات کی مد میں چندہ لینے کی نوبت آتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ان سے زکات مد میں رقم لینے سے ان کی زکات ادا ہوجاتی ہے، حالانکہ فقہاء نے ایک شہر کی زکات دوسرے شہر میں منتقل کرنے کو مکروہ لکھا ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
زکات کو ایک شہر سے دوسرے شہر یا ملک میں منتقل کرنا مکروہ تنزیہی ہےلیکن اس کے باوجود زکات ادا ہوجاتی ہے،البتہ اگر کسی معقول سبب سے دوسرے شہر یا ملک میں منتقل کرے تو بلا کراہت جائز ہے،بلکہ بسا اوقات زیادہ ثواب کا باعث ہوتی ہے مثلا اگر دوسرے شہر میں رشتہ دار ہوں یا وہاں کے لوگ زیادہ حاجتمند ہوں یا وہاں کے صلحاء،علماء یا طلبہ کو دینا مقصود ہو ۔
حوالہ جات
قال العلامة ابن نجیم رحمه الله قوله: )وكره نقلها إلى بلد آخر لغير قريب وأحوج) أما الصحة فلإطلاق قوله تعالى :{إنما الصدقات للفقراء} [التوبة: 60] من غير قيد بالمكان، وأما حديث معاذ المشهور :خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم، فلا ينفي الصحة؛ لأن الضمير راجع إلى فقراء المسلمين لا إلى أهل اليمن… وعدم الكراهة في نقلها للقريب للجمع بين أجري الصدقة والصلة، وللأحوج؛ لأن المقصود منها سد خلة المحتاج، فمن كان أحوج كان أولى، وليس عدم الكراهة منحصرا في هاتين؛ لأنه لو نقلها إلى فقير في بلد آخر أورع وأصلح، كما فعل معاذ رضي الله عنه لا يكره؛ ولهذا قيل: التصدق على العالم الفقير أفضل ،كذا في المعراج. )البحر الرائق(269/2:
وقال العلامة الحصکفی رحمه الله: (و) كره (نقلها إلا إلى قرابة)… (أو أحوج) أو أصلح أو أورع أو أنفع للمسلمين (أو من دار الحرب إلى دار الإسلام أو إلى طالب علم) وفي المعراج التصدق على العالم الفقير أفضل. (الدر المختار:2/353)
وقال جماعۃ من العلماء:ويكره نقل الزكاة من بلد إلى بلد إلا أن ينقلها الإنسان إلى قرابته أو إلى قوم هم أحوج إليها من أهل بلده، ولو نقل إلى غيرهم أجزأه، وإن كان مكروها.
)الفتاوی الھندیۃ:1/(190
کاظم علی
دارالافتاء جامعۃالرشید ،کراچی
13/جمادی الاولی/1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | کاظم علی بن نادر خان | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |