021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مزارعت  میں مالک فصل کی حفاظت کی ڈیوٹی دےتومزارعت کاحکم
74902کھیتی باڑی اور بٹائی کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

سوال:السلام علیکم  کیافرماتےہیں علماء کرام اس مسئلہ کےبارےمیں

ایک کی طرف سےزمین وبیج ہو،دوسرےکی طرف سےبیل وکام ہوتومزارعت جائزہے۔

کاشتکارکی طرف سےبیج ہواورمالک کی جانب سےزمین،بیل اورعمل ہوتوجائزنہیں ہے،اس لیےلازم ہےکہ مالک زمین کاشتکارکےحوالےکرے،یہاں یہ خود عامل ہےتواجارہ باطل ہوا۔

توضیح:زمین کاشتکارکےحوالےہے،ہل اسی نے چلایا،تخم اسی نےبویا،پانی اورکام کاشتکارکرتاہے،پکنےپرفصل  آدھی آدھی ہوگی۔

اگرفصل پکتےوقت مالک زمین ایک ماہ تک مرغیوں کوفصل سےبھگانےپرڈیوٹی دےتوکیاحکم ہے؟مزارعت صحیح ہوئی یانہیں ؟یہاں تومالک کاعمل دخل شامل ہوا،اگرایک مہینہ کوئی مزدور لگائےتوتنخواہ کون دےگا؟ہل چلانے اورتخم کی رقم کون اداء کرےگا؟یادونوں میں برابرتقسیم ہوگا؟زکوۃ کاکیابنےگا؟

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بنیادی طورپر مزارعت کی ممکنہ صورتوں میں سےتین صورتیں شرعا جائزہیں:

۱۔زمین کسی ایک کی طرف سےہو،باقی بیل،عمل اوربیج دوسرےکی طرف سےہوں۔

۲۔عمل کسی ایک کی طرف سےہو،باقی زمین،بیل اوربیج دوسرےکی طرف سےہوں۔

۳۔زمین اور بیج ایک کی طرف سےہوں،عمل اوربقردوسرےکی طرف سےہوں۔

مزارعت میں اخراجات سےمتعلق اصول یہ ہےکہ مزارعت کی مدت مکمل ہونےکےبعداخراجات مالک اورکاشتکاردونوں پران کےحصوں کےاعتبارسےتقسیم ہوں گےاورمزارعت کی مدت مکمل ہونےسےپہلےکھیتی کی تیاری سےپہلےکاہرعمل مثلابیج ڈالنےاورحفاظت(کوئی بندہ فصل کی حفاظت کےلیےرکھاجائے)کےاخراجات،اسی طرح فصلوں کوپانی دینےکےلیےنہرکےپانی کاکرایہ وغیرہ یہ سب عامل پرہوتےہیں،نہ کہ  مالک پر۔

صورت مسئولہ میں اگرمالک خودحفاظت کرتاہےتوبظاہریہ اس کی طرف سےتبرع ہوگا(اجرت وغیرہ کاشرعا مستحق نہ ہوگا)کیونکہ فصل کی حفاظت اوراس کےاخراجات شرعاکاشتکارکےذمےہیں،اب یہ کاشتکارکی ذمہ داری ہےکہ وہ خودحفاظت کرےیاکسی اورکورکھے(تواس کی اجرت بھی خودکاشتکارہی دےگا)اس صورت میں مزارعت صحیح ہوگی،البتہ عقدکی ابتداءسےمالک پرحفاظت کی شرط لگانےیامالک کوزمین کی حفاظت کی اجرت دی جائےتومزارعت فاسدہوجائےگی۔

جب تک عقدمزارعت مکمل نہ ہو،حفاظت،مزدوری ،ہل چلانےاورتخم ڈالنےکےاخراجات  کاشتکارپرہی ہوں گے۔

حوالہ جات
"رد المحتار " 26 / 94:
(و ) اعلم أن ( نفقة الزرع ) مطلقا بعد مضي مدة المزارعة ( عليهما بقدر الحصص ) وأما قبل مضيها فكل عمل قبل انتهاء الزرع كنفقة بذر ومؤنة حفظ وكري نهر على العامل ولو بلا شرط ، فإذا تناهى بقي مالا مشتركا بينهما ، فتجب عليهما مؤنته كحصاد ودياس ، كذا حرره المصنف ، وحمل عليه أصل صدر الشريعة فليحفظ ( فإن شرطاه على العامل فسدت ) كما لو شرطاه على رب الأرض۔۔۔
"رد المحتار" 26 / 98:
(وصح اشتراط العمل ) كحصاد ودياس ونسف على العامل ( عند الثاني للتعامل وهو الأصح ) وعليه الفتوى ملتقى،قال في الخانية : لكن إن لم يشترط يكون عليهما ، كما لو اشترى حطبا في المصر لا يجب على البائع أن يحمله إلى منزل المشتري ، وإذا شرط عليه لزمه للعرف ، ولو شرط الجذاذ على العامل في المعاملة فسد عند الكل لعدم العرف ۔وعن نصر بن يحيى ومحمد بن سلمة أن هذا كله على العامل شرط عليه أم لا للعرف ۔قال السرخسي : وهو الصحيح في ديارنا أيضا وإن شرطا شيئا من ذلك على رب الأرض فسد العقد عند الكل لعدم العرف ۔
"المبسوط للسرخسي"23 / 64:
قال رحمه الله: وإذا اشترط رب الأرض على العامل الحصاد فالمزارعة فاسدة من أيهما كان البذر والأصل أن العمل الذي به يحصل الخارج أو يتربى في المزارعة الصحيحة يكون على العامل وذلك بمنزلة الحفظ والسقي إلى أن يدرك الزرع ۔۔۔۔۔وما يكون من العمل بعد الإدراك التام إلى أن يقسم كالحصاد والدياس والتذرية يكون عليهما لأن الخارج ملكهما فالمؤنة فيه عليهما بقدر الملك وما يكون من العمل بعد القسمة كالحمل إلى البيت والطحن يكون على كل واحد منهما في نصيبه خاصة۔۔۔۔۔۔
"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر "4 / 146:
ونفقة الزرع ومؤنة الحفظ وكري الأنهار عليهما أي على المتعاقدين بقدر حصصهما أي على قدر ملكهما بعد انقضاء المدة عليهما لأنها كانت على العامل لبقاء العقد لأنه مستأجر في المدة فإذا مضت انتهى العقد فتجب عليهما لأنه مال مشترك بينهما وأيهما أنفق بغير إذن الآخر ولا أمر قاض فهو متبرع لأن كل واحد منهما غير مجبور على الإنفاق ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

10/جمادی الاولی  1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب