021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نو بہن بھائیوں میں میراث کی تقسیم
74890میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میری والدہ کا انتقال ہوا، ان کی ملکیت میں ایک گھر تھا جس کی موجودہ قیمت ایک کروڑ بیس لاکھ (12,000,000) روپے ہے۔ والدہ کے انتقال کے وقت ان کے والدین، دادا، دادی اور نانی میں سے کوئی زندہ نہیں تھا۔ اس کے بعد ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوا، والد صاحب کے انتقال کے وقت ان کے والدین، دادا، دادی اور نانی میں سے بھی کوئی زندہ نہیں تھا۔ والدین کے انتقال کے وقت ہم نو بہن بھائی تھے، چھ بھائی اور تین بہنیں۔ والدین کے انتقال کے بعد ہمارے ایک بھائی کا انتقال ہوا، ان کی اولاد میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں، جبکہ بھائی کی بیوہ نے دوسری شادی کرلی، بچے بھی اسی کے پاس ہیں۔    

سوال یہ ہے کہ اس گھر کی تقسیم کیسے ہوگی اور ہر فرد کو کتنے پیسے ملیں گے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ آپ کے والدین نے انتقال کے وقت اپنی اپنی ملکیت میں اس گھرسمیت نقدی، سونا، چاندی، جائیداد، مکانات، کاروبار غرض جو کچھ چھوٹا، بڑا ساز و سامان چھوڑا ہے، یا اگر کسی کے ذمہ ان کا قرض تھا، تو وہ سب ان کا ترکہ ہے۔ اس میں سے سب سے پہلے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں، البتہ اگر یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان اٹھائے ہوں تو پھر انہیں ترکہ سے نہیں نکالا جائے گا۔ اس کے بعد دیکھا جائے اگر ان کے ذمے کسی کا قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے گا۔ اس کے بعد اگر انہوں نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ کی حد تک اس کو پورا کیا جائے گا۔ اس کے بعد جو کچھ بچے، وہ ان کے ورثا میں تقسیم ہوگا، جس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ بقیہ ماندہ ترکہ کے کل پندرہ (15) حصے کر کے چھ بیٹوں میں سے ہر ایک کو دو، دو (2، 2) حصے اور تین بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ایک، ایک (1، 1) حصہ دیدیں۔

(2)۔۔۔ والدین کے انتقال کے بعد آپ کے جس بھائی کا انتقال ہوا ہے، اس کا حصہ اس کے ورثا میں تقسیم کرنے کا  طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مذکورہ بالا تین حقوق (تجہیز و تکفین، قرض اور وصیت) دیکھے جائیں، اگر اس کے ذمے ان میں سے کوئی حق ہو تو اس کو ادا کیا جائے۔ اس کے بعد باقی ماندہ ترکہ بتیس (32) حصوں میں تقسیم کر کے چار (4) حصے اس کی بیوہ کو دیدیں، بقیہ اٹھائیس (28) حصوں میں سے بیٹے کو چودہ (14) حصے، اور دو بیٹیوں میں سے ہر ایک کو سات، سات (7، 7) حصے دیدیں۔ مرحوم بھائی کے ترکہ میں سے آپ بھائیوں اور بہنوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ واضح رہے کہ شوہر کی وفات کے بعد اگر اس کی بیوہ دوسرا نکاح کرلے تو وہ میراث سے محروم نہیں ملتی، اسے اس کا حصہ دینا فرض ہے۔

 یہ تمام ورثا کے درمیان ترکہ کی اصولی تقسیم کا بیان ہوا۔ اب مذکورہ مکان جس قیمت پر بھی فروخت ہو، وہ قیمت اسی ترتیب کے مطابق تمام ورثا میں تقسیم ہوگی۔ مثلا اگر یہ مکان ایک کروڑ بیس لاکھ (12,000,000) روپے میں فروخت ہوتا ہے تو یہ رقم مندرجہ ذیل نقشے کے مطابق ہوگی۔ چونکہ یہ مکان آپ کے والدین کا ہے، اس لیے چارٹ میں تمام رشتے انہی کی نسبت سے لکھے جارہے ہیں۔  

بیٹا

1,600,000

بیٹا

1,600,000

بیٹا

1,600,000

بیٹا

1,600,000

بیٹا

1,600,000

بیٹی

800,000

بیٹی

800,000

بیٹی

800,000

بہو

200,000

پوتا

700,000

پوتی

350,000

پوتی

350,000

 

حوالہ جات
القرآن الکریم، [النساء: 11]:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ}.  
السراجی فی المیراث،ص 38-36:  
العصبات النسبیة ثلاثة:  عصبة بنفسه، وعصبة بغیره، و عصبة مع غیره. أما العصبة بنفسه فکل ذکر لا تدخل فی نسبته إلی المیت أنثی، وهم أربعة أصناف: جزء المیت، و أصله، و جزء أبیه، و جزء جده، الأقرب فالأقرب، یرجحون بقرب الدرجة ……...…… و أما العصبة بغیره فأربع من النسوة، و هن اللاتی فرضهن النصف و الثلثان، یصرن عصبة بإخوتهن کما ذکرنا فی حالاتهن.  

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

15/جمادی الاولی /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب