021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ کے ذریعے کمپنی کی طرف سے دی ہوئی انشورنس کی رقم حاصل کرنے کا حکم
75074سود اور جوے کے مسائلانشورنس کے احکام

سوال

ہم جس کمپنی میں کام کرتے ہیں وہاں ہر ورکر کی انشورنس ہو تی  ہے۔ کمپنی نے ہر ورکر کے عوض کچھ رقم سالانہ ادا کر رکھی ہوتی ہے  اور ہر ورکر اپنے علاج معالجہ کے پیسے رسیدیں جمع کر وا کر  وصول کر لیتا ہے چاہے وہ ہسپتال میں زیر علاج ہو یا پرائیویٹ چیک اپ کروا کر وصول کرے۔ ڈاکٹر کا نسخہ اور دوائیوں کے رسیدیں دینی پڑتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر سالانہ مجھے 50000  روپے کی حد دی جاتی ہے تو اگر میں 20000 ہزار روپے کا میڈیکل وصول کر چکا ہوں ادویات کی مد میں تو کیا  بقایا 30000 نکلوانا میرے لئے جائز ہے؟ اگر میں بیوی یا بچوں کی کوئی بیماری کی رسید یا   نسخہ جمع کر والوں تو مجھے پیسے مل جائیں گے۔

نوٹ: پیسے ڈاکٹر کا نسخہ یا ادویات کی رسید پر ہی ملتے ہیں۔  چونکہ کمپنی نے میرے عوض رقم انشورنس کمپنی کو سالانہ ادا کر رکھی ہے تو بقیہ 30000 ہزار انشورنس کمپنی کے پاس ہی رہ جاتے ہیں تو کیا میں یہ رقم نکلوانے کا اہل ہوں کہ نہیں ؟ بقایا رقم کسی بھی میڈیکل اسٹور سے صرف رسید بنوا کر لی جا سکتی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

انشورنس کمپنی  سے معلومات حاصل کرنے پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ انشورنس پریمیم سائل کی طرف سے انفرادی  حیثیت میں ادا  نہیں کیا جاتا بلکہ چند ملازمین کا ایک گروپ بنا کر ان سب سے فارم پر دستخط لئے جاتے ہیں اور پھر    اس پورے گروپ کے  کا انشورنس کروایا جاتا ہے ۔ اس سے متعلق ایک بات تو یہ واضح رہے کہ مروجہ انشورنس کی تمام صورتیں سود اور  قمار (جوا)  کی بنا پر ناجائز اور  حرام ہیں،  رہی بات کہ کمپنی نےاگرمعاہدہ کرلیاتوکمپنی کے ملازمین کے لیے اس  سے فائدہ اٹھاناجائزہوگایانہیں،تواس کی ممکنہ طورپرتین صورتیں ہو سکتی ہیں:

۱-کمپنی کے ملازمین کسی کلینک یا ہسپتال سے علاج کرواتے ہیں اور علاج کے اخراجات کلینک یا ہسپتال والے براہ راست انشورنس کمپنی سے وصول کرتے ہیں، اس صورت میں اگرچہ کمپنی کو انشورنس کےمعاملےکاگناہ ہوگا،لیکن ملازم کےلیےجائزہےکہ وہ علاج کروائے،کیونکہ علاج کے خرچ کی ذمہ داری ملازم کی متعلقہ کمپنی پر ہے، پھر  وہ بلوں کی ادائیگی کےلیےجوطریق کاراختیارکرےاس کی ذمہ دار وہ خود ہے۔

۲- دوسری صورت یہ ہے کہ کمپنی کے ملازمین کسی کلینک یا ہسپتال سے علاج کراتے ہیں اور کلینک یا ہسپتال والے علاج کے اخراجات ملازم کی متعلقہ کمپنی سے وصول کرتے ہیں اورپھرکمپنی اس علاج کے اخراجات انشورنس کمپنی سے وصول کر لیتی ہے، یہ صورت بھی متعلقہ کمپنی کےلیےتوجائزنہیں،مگرملازم کے لیے اس طرح علاج کراناجائزہے ، کیونکہ علاج کے خرچ کی ذمہ داری ملازم کی متعلقہ کمپنی پرہے،پھروہ بلوں کی ادائیگی کےلیےجوطریق کاراختیارکرےاس کی ذمہ دار وہ خود ہے۔

۳-تیسری صورت یہ ہے کہ ملازم کلینک یا ہسپتال کی فیس خوداداکرے، لیکن متعلقہ کمپنی نےاسےپابندکردیاہوکہ وہ بل کی رقم خودجاکرانشورنس کمپنی سے وصول کرے۔ اس صورت میں چونکہ ملازم کو انشورنس کمپنی سے رقم مل رہی ہے جس کا زیادہ تر روپیہ حرام ہے، ا س لیے ملازم کے لیے اس کالیناجائزنہیں،البتہ اگر ملازم کو یہ معلوم ہوسکےکہ متعلقہ کمپنی نے انشورنس کمپنی کو جتنا پریمیم ادا کیا ہے، ابھی تک اتنی رقم اس کے ملازمین نے وصول نہیں کی تو جتنا پریمیم انشورنس کمپنی کے پاس باقی ہو صرف اس حد تک رقم وصول کرناجائزہوگا۔(فتوی دارالعلوم کراچی"میڈیکل انشورنس کاتفصیلی حکم")

سائل کی وضاحت کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوئی کہ ہسپتال میں داخلے یا کسی بڑے علاج (جس کو Hospitalization کہتے ہیں )کی صورت میں ہسپتال  اخراجات خود انشورنس کمپنی سے وصول کرتا ہے  جو کہ درج بالا پہلی  صورت کے تحت آتا ہے اور  عام دوائی یا معمولی علاج معالجہ کی صورت میں (جس کو OPD کہتے ہیں )  ملازم خود اس کی ادائیگی کرکے رسید کمپنی میں جمع کرتا ہے جس پر درج رقم   مہینے کے آخر میں ملازم  کے اکاؤنٹ میں  بھیج دی جاتی ہے اور کمپنی وہ رقم بعد میں انشورنس کمپنی سے وصول کر لیتی ہے  جو  کہ مذکورہ  بالا دوسری صورت کے  تحت داخل ہے. ان دونو ں صورتوں میں گو کہ کمپنی سودی معاملہ کرنے پر گناہ گار ہو گی لیکن ملازم کے لیے جائز ہے کہ وہ  اپنا علاج معالجہ اس رقم سے کر وائے .

بہرحال، اس تفصیل کے بعد یہ سمجھئے کہ   کمپنی کی جانب سے آپ کو میڈیکل کی سہولت ادا کرنا ان کی طرف سے تبرع واحسان ہے، اور انہوں نے  یہ تبرع بیماری کی صورت میں علاج معالجہ اور ادویات وغیرہ کی ضرورت کے لیے دیا ہوتا ہے، علاج اور ادویات لیے بغیر محض جعلی رسیدیں بنا کر  آپ کو دی گئی انشورنس کی حد (پچاس ہزار )کی بقیہ رقم(تیس ہزار)   لینا شرعاً  کمپنی کے ساتھ دھوکا دہی اور دروغ  گوئی ہے جو کہ ناجائز ہے  اور دوسرا   یہ کہ یہ  رقم آپ کی  ملکیت نہیں ہے بلکہ  گروپ میں موجود تمام ملازمین کا اس میں حق ہے۔  چنانچہ بغیر طبی ضرورت کے ان  پیسوں کا لینا جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات
القران الكريم ، البقرة 🙁 ۲۷۸  إلى ۲۸٠ ):
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ  وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾
صحيح مسلم للنيسابوري '1 / 69:
عن أبيه عن أبى هريرة أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال « من حمل علينا السلاح فليس منا ومن غشنا فليس منا ۔
رد المحتار على الدر المختار، ط: دار الفكر – بيروت(166/5):
(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه (قوله فكره للمرتهن إلخ) الذي في رهن الأشباه يكره للمرتهن الانتفاع بالرهن إلا بإذن الراهن اهـ سائحاني.
 

محمد انس جمیل

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

۲۰،جمادی الاولٰی ۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب