021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کی پٹائی کرنا
75106نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ   میری اپنی  بیوی  کے ساتھ اکثر ان بن ہوتی رہتی ہے، کبھی مجھے غصہ آ جاتا ہے تو میں اپنی بیوی کی پٹائی بھی کر دیتا ہوں۔ میری   آپ رہنمائی فرمائیں کہ کیا شرعاً بیوی کی پٹائی کرنا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اسلام نے ایک عورت کے ماں، بیوی، بیٹی وغیرہ کی حیثیت سے  تمام مقدس رشتوں کو عزت دی ہے۔ خاص طور پر اس صنف نازک پر تشدد بالکل بھی روا نہیں ۔ چنانچہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا   ہے کہ بیویوں  کو اس طرح نہ مارو  جیسے غلام کو مارنے کا رواج ہے۔ بلکہ  میں تمہیں تمہاری بیویوں کے بارے میں حسن سلوک کی تاکید کرتا ہوں۔لہذا بلاوجہ بیوی کو مارنا اور پیٹنا اس کی تو اسلام میں بالکل بھی گنجائش نہیں ہے۔

نیز  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی   فرمایا  ہے کہ عورت کی ایک بات پسند نہ آئے تو دوسری بات پر توجہ دو جو تمہیں پسند آتی ہو۔نیز ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ عورت کو بالکل سیدھا کرنے کی کوشش  نا پسندیدہ ہے۔  یعنی اس کا مزاج مرد کے مزاج سے مختلف ہے، اس کو مکمل اپنے مزاج کے مطابق بنانے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس لیے بیوی سے کبھی کبھار ایسے افعال یقیناً سرزد ہونگے جو شوہر کے مزاج کے خلاف ہونگے، تو ان پر صبر کرنا چاہیے۔

 آپ کا یہ کہنا کہ مجھے غصہ آجاتا ہے، اور میں پٹائی کر دیتا ہوں۔ جبکہ غصے کی حالت میں تو انسان اپنے قابو میں نہیں رہتا،اس وقت تو  اس کو صحیح بھی غلط لگنے لگتا ہے۔ لہذا ٹھنڈے دماغ کے ساتھ، وعظ و نصیحت کے انداز میں اس کو سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ اور اس کے مزاج کے مطابق اس کے ساتھ مناسب رویہ اختیار کیا جائے۔

حوالہ جات
قال اللہ تعالی:     ٱلرِّجَالُ قَوَّٰمُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بَعۡضَهُمۡ عَلَىٰ بَعۡضٖ وَبِمَآ أَنفَقُواْ مِنۡ أَمۡوَٰلِهِمۡۚ فَٱلصَّٰلِحَٰتُ قَٰنِتَٰت ٌ حَٰفِظَٰتٞ لِّلۡغَيۡبِ بِمَا حَفِظَ ٱللَّهُۚ وَٱلَّٰتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَٱهۡجُرُوهُنَّ فِي ٱلۡمَضَاجِعِ وَٱضۡرِبُوهُنَّۖ فَإِنۡ أَطَعۡنَكُمۡ فَلَا تَبۡغُواْ عَلَيۡهِنَّ سَبِيلًاۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيّٗا كَبِيرٗاً (النساء: 34)
عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه قال:  قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «استوصوا بالنساء فإن المرأة خلقت من ضلع وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه فإن ذهبت تقيمه كسرته وإن تركته لم يزل أعوج فاستوصوا بالنساء.» (صحیح البخاری، حدیث نمبر: 3331)
عن لقيط بن صبرة قال: يا رسول الله، إن لي امرأة فذكر من طول لسانها وبذائها ، فقال: " طلقها "قال: يا رسول الله، إنها ذات صحبة وولد، قال: " فأمسكها وأمرها، فإن يك فيها خير فستفعل، ولا تضرب ظعينتك ضربك أمتك .  (مسند احمد: 16،384)
قال العلامۃ الکاسانی  رحمہ  اللہ تعالی :    ومنها ولاية التأديب للزوج إذا لم تطعه فيما يلزم طاعته بأن كانت ناشزة، فله أن يؤدبها لكن على الترتيب، فيعظها أولا على الرفق واللين بأن يقول لها كوني من الصالحات القانتات الحافظات للغيب ولا تكوني من كذا وكذا، فلعل تقبل الموعظة، فتترك النشوز، فإن نجعت فيها الموعظة، ورجعت إلى الفراش وإلا هجرها.
وقيل يخوفها بالهجر أولا والاعتزال عنها، وترك الجماع والمضاجعة، فإن تركت وإلا هجرها لعل نفسها لا تحتمل الهجر...... فإذا هجرها، فإن تركت النشوز، وإلا ضربها عند ذلك ضربا غير مبرح، ولا شائن، والأصل فيه قوله عز وجل {واللاتي تخافون نشوزهن فعظوهن واهجروهن في المضاجع واضربوهن} [النساء: 34] ، فظاهر الآية وإن كان بحرف الواو الموضوعة للجمع المطلق لكن المراد منه الجمع على سبيل الترتيب، والواو تحتمل ذلك، فإن نفع الضرب، وإلا رفع الأمر إلى القاضي ليوجه إليهما حكمين حكما من أهله، وحكما من أهلها كما قال الله تعالى: {وإن خفتم شقاق بينهما فابعثوا حكما من أهله وحكما من أهلها إن يريدا إصلاحا يوفق الله بينهما} [النساء: 35]      (البدائع الصنائع: 334/2))

عبدالعظیم

دارالافتاء، جامعۃالرشید ،کراچی

23/جمادی الاولی   1443 ھ        

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالعظیم بن راحب خشک

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب