021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سودی قرض لینے والی کمپنیز میں انویسٹمنٹ کرنے سے متعلق سوالات
74969شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

میں مختلف اداروں   کے ٹریژری ڈپارٹمنٹ کو  انوسٹمنٹ کے حوالے سے  گائیڈکرتا ہوں یعنی کہ وہ اپنے فنڈزکو کس کس جگہ پر لگا کر  بہتر نفع کما سکتے ہیں؟ میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ تمام تر انويسٹمنٹ شریعت کے مطابق ہو  اور بہت سارے اداروں کو  جو ناجائز سرمایہ کاری میں ملوّث تھے وہاں سے ہٹا کر جائز سرمایہ کاری میں لگا چکا ہوں۔بعض اوقات  کام کرتے ہوئے مندرجہ ذیل صورتوں کا سامنا ہوتا ہے:

1. کبھی ایسا  ہوتا ہے کہ کسی ادارے کا فنڈ کسی ایسی کمپنی کے شیئرز میں لگانا ممکن ہوتا ہے جن کا اصل کاروبار بھی حلال ہوتا ہے  او ر شریعہ اسکریننگ کی باقی شرائط پر بھی پورا  اترتے ہیں ،لیکن اس کمپنی کے سودی قرضوں  اور اثاثوں کی نسبت  ۳۷ فیصد سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اس وجہ سےKMI میں لسٹ نہیں ہوپاتی اور جو کمپنیز لسٹڈ ہوتی ہیں ان میں کسی وجہ سے فنڈ لگانا ممکن نہیں ہوتا، ایسی صورت میں اگر ان کو منع کردیا جائے تو زیادہ نفع کمانے کے چکر میں یہ ادارے  بالکل سودی اور غیرشرعی سرمایہ کاری کی  طرف چلے جاتے ہیں۔پوچھنا یہ ہے کہ ایسی صورت میں ان اداروں کے فنڈز مذکورہ  کمپنیز کے شیئرز میں انویسٹ کر نے کی کو گنجائش ہے یا نہیں ۔ 

2. کبھی ایسا  ہوتا ہے کہ کسی ادارے کے فنڈ کو ایسی کمپنی کے شیئرز میں لگوا دیتا  ہوں جو KMI انڈیکس کے مطابق جائز ہوتے ہیں، لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد  معلوم ہوتا ہے کہ وہ  کمپنی انڈیکس سے اس وجہ سے نکال دی  گئی کہ اس کے سودی قرضوں اور اثاثوں کے مابین نسبت ۳۷ فیصد  سے تجاوز کر کے ۴۰ ،۵۰ یا اس سے بھی زیادہ  ہوچکی ہے، ایسا  دو وجہ سے ہوتا ہے: کبھی تو کمپنی نے مزید سودی قرضہ  لے لیا ہوتا ہے  اور کبھی کسی جائز لائیبلٹی (Liability) کی ادائیگی کردی ہوتی ہے، جس سے ان کے اثاثوں میں کمی  واقع ہوتی ہے اور سودی قرضوں کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔ ایسی صورت  میں اگر سرمایہ واپس نکالا جائےتو  شدید مشکلات اور خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس چیز  سے ڈرتے ہوئے  بہت سارے  سرمایہ کار ادارےاسلامی سرمایہ کاری کی طرف آنے کی ہمت نہیں کرتے۔ پوچھنا یہ ہے کہ ایسی صورت میں سرمایہ کاری برقرار رکھنے کی گنجائش ہےیا نہیں؟ اگر نہیں تو اس کا کیا متبادل ہوسکتا ہے؟

3.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے کسی ہولڈنگ کمپنی کے ساتھ شرکت کا معاملہ کرنا پڑتا ہے، جبکہ ہولڈنگ  کمپنی کے پاس ایسے شیئرز بھی ہوتے ہیں جو سودی قرض کا تناسب ۳۷  فیصد سے زیادہ ہونے کی وجہ سے KMI انڈیکس سے خارج ہوتی ہے،  کیا ایسی کمپنی کے ساتھ  کاروبار میں شراکت کی جاسکتی ہے؟

4. کیا ایسی صورت میں  ملائیشیا  کے اسکریننگ کرائیٹیریا SC of Malaysia کو فالو کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ ان کے نزدیک سودی قرض اور ااثاثوں کے مابین نسبت کو نہیں دیکھا جاتا۔

5. کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک کمپنی KMI پر تو شریعہ کمپلائینٹ  نہیں لیکن دیگر انڈکسز مثلاً AAIOFI، DOW JONES، SC of Malaysiaپر شریعہ کمپلائینٹ   ہوتی ہے، کیا ایسی کمپنی میں کسی فرد یا ادارے کو  انوسٹمنٹ کروائی جاسکتی ہے۔

6.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی فردمثلاً A نے بینک سے سودی قرض لے کر کوئی کاروبار شروع کر لیا  اور بعدمیں B کو پیشکش کی کہ میرے ساتھ کاروبار میں شریک ہو جائیں کیا B اس کاربار میں Aکے ساتھ شریک ہو سکتا ہے جبکہ کاروبار کا کل سرمایہA نے سودی قرض  سے وصول کیا ہے جس کی ادائیگی بھی ابھی باقی ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوالات کے جوابات بالترتیب ملاحظہ فرمائیں:

  1. سودی بینکوں کی غالب رقوم حلال ہوتی ہیں، کیونکہ اس میں عام لوگوں کی رقوم جمع ہوتی ہیں، جن کو بغیر وجہ کے حرام نہیں قرار دیا جاسکتا، اسی طرح بینک کی طرف سے دی جانے والی جائز خدمات جیسے ڈیبٹ کارڈ، چارج کارڈ، اے ٹی ایم کارڈ جاری کرنے اورکرنٹ اکاؤنٹ کھولنے وغیرہ کے عوض لی  جانے والی اجرت شرعاً حرام نہیں ہوتی۔ اور انہی غالب حلال رقوم سے ہی بینک کمپنیز کو سود پر قرض کی سہولت فراہم کرتا ہے، یہ قرض کا معاہدہ اگرچہ سودی ہونے کی وجہ سے ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے، جس سے بچنا لازم ہے، لیکن اس معاہدہ کے تحت لی جانے والی قرض کی رقم حرام نہیں ہوتی اور نہ ہی اس رقم سے شروع کیا جانے والا جائز کاروبار حرام ہوتا ہے، بلکہ اگر کمپنی کے کاروبار میں کوئی خلافِ شرع کام نہ ہو رہا ہو تو اس سے حاصل شدہ نفع  بھی حرام نہیں سمجھا جائے گا۔جہاں تک ایسی کمپنیز میں رقم انویسٹ کرنے سے منع کرنے کا تعلق ہے تو  اس کی دو وجہیں ہیں:

پہلی وجہ: کوئی بھی کمپنی جب نفع کا حساب کرتی ہے تو تمام اخراجات اور لائیبلٹیز (Liabilities) کی رقم نکالنے کے بعد جو رقم باقی بچتی ہے اس کو بطورِ نفع تقسیم کرتی ہے اور لائیبلٹیز (Liabilities) میں وہ سود بھی شامل ہوتا ہے جو قرض لینے کی بنیاد پر بینک وغیرہ کو ادا کرنا ہوتا ہے، اس طرح سود کی ادائیگی میں ہر شیئرہولڈر کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے، مثلا: اگر کسی کمپنی کے ذمہ ایک کروڑ روپیہ قرض اور اس پر پانچ لاکھ روپیہ سود واجب الاداء ہے تو سود کی رقم کا حساب کرنے سے پہلے ہر شیئرہولڈر کو ملنے والا متوقع نفع مثلاً: ایک سو دس روپے تھا، جبکہ سود کا پانچ لاکھ شامل کرکے ہر شیئرہولڈر کا نفع کم ہو کر سو روپے تک آگیا اور اورپر والے دس روپے سود کی ادائیگی میں شامل کرلیے گئے، جبکہ سود کا ایک روپیہ بھی جس طرح لینا گناہ کبیرہ اسی طرح دینا ہے۔

وجہ نمبر2: دوسری وجہ یہ کہ ہے سودی لین دین اور سودی معاہدات کے بھیانک دروازے کو بند کرنا مقصودہوتاہے، کیونکہ سودی قرض کی بنیاد پر جب ایسی کمپنیزکے شیئرز نہیں خریدے جائیں گے تو کاروبار کے لیے ان کے پاس لوگوں کا پیسہ نہیں پہنچے گا اور ان  کی حوصلہ شکنی ہو گی، جس کی وجہ سے وہ کمپنیز سودی معاہدات سے دور رہیں گی۔

 اس لیے اصل تو یہی ہے کہ ایسی کمپنیز کے شیئرز بالکل نہ خریدے جائیں جن پر تھوڑا ساسود بھی واجب ہو، تاکہ سود دینے کا گناہ لازم نہ آئے، البتہ سود کی بہتات اور شریعہ کمپلائنٹس کمپنیز کے کم ہونے کی وجہ سےلوگوں کو  کچھ گنجائش دی جاتی ہے اور ان کو اس بات کا پابند بنایا جاتا ہے کہ ایسی کمپنیز کے شیئرزخریدے جائیں جن کی حرام آمدنی کا تناسب مجموعی آمدن میں سے پانچ فیصد (5%)  اور اس کےسودی قرضوں کا تناسب تیس فیصد(30%) سے زائد نہ ہو، یہ دراصل ایوفی (AAIOFI) کا معیار ہے اور اسی پر عمل کرنا بہتر ہے، کیونکہ اس میں احتیاط کا عنصر زیادہ ہے۔

 لہذا عام حالات میں ایوفی کے معیار کے مطابق تیس فیصد(30%) سے زیادہ سودی قرض لینے والی کمپنیوں میں سرمایہ نہ کی جائے، البتہ مذکورہ صورت میں چونکہ سودی اور غیر شرعی کام کرنے والی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے والے اداروں کو ترغیب دینا مقصود ہے، اس لیے ان کے لیے KMI (Karachi Meezan Index) کے معیار پر پورا اترنے والی کمپنیوں میں بھی سرمایہ کاری کرنے کی گنجائش ہے، البتہ  ایسی کمپنیز میں رقم انویسٹمنٹ نہ کی جائے جن کے سودی قرضوں کی شرح کے ایم آئی (KMI)کے معیار سے زیادہ ہو اور آج کل KMI کامعیاراس کی ویب سائٹ کے مطابق سینتیس (37%) فیصدہے۔ نیزاگر کوئی کمپنی KMI میں لسٹڈ نہ ہو، مگر اس کا بنیادی کاروبار جائز اور حلال ہواوراس کے سودی قرضوں کی شرح  ایوفی (AAIOFI)کے معیارسے زیادہ  نہ ہو تو اس میں بھی  رقم انویسٹ کی جا سکتی ہے اور اس انویسٹمنٹ سے حاصل شدہ نفع حرام نہیں ہو گا۔

یہ بات واضح رہے کہ سودی قرض لینے والی کسی بھی کمپنی میں انویسٹمنٹ کرنے کی صورت میں شیئر ہولڈر کی ذمہ داری ہے کہ وہ کمپنی کی سالانہ میٹنگ  (GAM) میں ڈائریکٹران کو سودی قرض لینے سے زبانی اور تحریری طور پر ضرور منع کرے اور غیر اختیاری طور پر اس کے حصہ کے نفع سے جو سود ادا کیا گیا اس پر اللہ تعالیٰ سے توبہ اور استغفار کرنا ضروری ہے۔

  1. مذکورہ صورت میں جب وہ کمپنی کے ایم آئی (KMI)کی لسٹ سے نکل جائے تو اوّلاً اس کمپنی سے سرمایہ نکانے کی کوشش کرنا چاہیے، خواہ کسی بھی وجہ سے وہ کمپنی کے ایم آئی(KMI) کی لسٹ سے نکلی ہو،  کیونکہ کمپنی کے ذمہ جتنا زیادہ سودی قرض ہو گا ہر شیئرہولڈر کو اتنا ہی زیادہ سود ادا کرنا پڑے گا، البتہ اگر فوری  طور پر سرمایہ واپس لینا کافی مشکلات کا باعث ہو تو مناسب اور ضروری تاخیر کی بھی گنجائش ہے۔ نیز جتنی مدت تک مذکورہ کمپنی میں سرمایہ لگا رہے گا اس مدت کے دوران ضروری ہے کہ شیئر ہولڈر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے لیے سالانہ میٹنگ میں کمپنی کے مالکان کو سودی قرض لینے سے منع کرے اور اس کے خلاف آواز اٹھائے۔
  2. اگر ہولڈنگ کمپنی سودی قرضوں کے تناسب کے زیادہ ہونے کی وجہ سے کے ایم آئی (KMI)کی ِلسٹ میں شامل نہیں تو اس کمپنی میں سرمایہ کاری نہ کی جائے۔ جیسا کہ جواب سوال نمبر1 تحت گزر چکا ہے۔
  3. اگر کمپنی کے ایم آئی(KMI)کی لسٹ میں شامل نہیں تو عام حالات میں دیگر شریعہ اسکریننگ کرنے والے اداروں کی لسٹ میں شامل شدہ کمپنیز کے شیئرز خریدنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، کیونکہ دیگر ممالک کے ادارے مختلف فقہی مسالک سے تعلق رکھتے ہیں، جیسے ملائیشیا کے علماء شافعی مسلک کو لیتے ہیں اور ایوفی میں چاروں مسالک کے علمائے کرام شامل ہیں اور معاملات مالیہ میں چاروں مذاہب کے فقہائے کرام کے درمیان اختلاف بھی ہے اور ہر ادارہ اپنے فقہی اصولوں کے مطابق کمپنیز کی شریعہ اسکریننگ کرتا ہے، لہذا حنفی شخص کو بغیر تحقیق کے ان اداروں کی لسٹ میں شامل کمپنیز میں انویسٹمنٹ نہیں کرنا چاہیے۔

البتہ سوال میں چونکہ ان اداروں کے بارے میں پوچھا گیا ہے جو زیادہ نفع کمانے کی خاطر سودی اور غیر شرعی کمپنیوں میں انویسٹمنٹ کرتے ہیں تو ان کو ترغیب دے دیگر ممالک کے شریعہ اسکریننگ کرنے والے اداروں کی شریعہ کمپلائنٹس کمپنیز میں انویسٹمنٹ کروانا ٲھون البلیتین (دو آزمائشوں میں سے کم درجے کی آزمائش کو اختیار کرنا)کے اصول کے تحت بہر حال بہتر ہے، اگرچہ ان کے سودی قرضوں کی شرح کے ایم آئی کے معیار کے مطابق سینتیس(%37) فیصد سے زیادہ ہو۔ کیونکہ اس سے کم از کم اتنا فائدہ ضرور ہو گا کہ اس کمپنی کا بنیادی کاروبار حلال ہونے کی وجہ اس  سے حاصل شدہ نفع حرام نہیں ہو گا، باقی سود دینے کا گناہ ہو گا، جس پر اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنا اور سالانہ میٹنگ میں کمپنی کو سودی قرض لینے سے منع کرنا ضروری ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی کرنا چاہیے کہ کسی ایسی کمپنی میں انویسٹمنٹ کی جائے، جو کے ایم آئی کی لسٹ میں شامل ہو اور اس کے سودی قرضوں کی شرح کم سے کم ہو۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ سوال میں ذکر کی گئی عبارت کہ ایوفی(AAIOFI) اور ملائیشیا کی ایس  اے سی (Sharia Advisary Council)کے معیار کے مطابق سودی قرضوں اور اثاثوں کے درمیان نسبت کو نہیں دیکھا جاتا، درست نہیں، کیونکہ  کمپنیز کے شیئرز خریدنے کے لیے ایوفی (AAIOFI) کے معیار کے مطابق تیس فیصد(30%) اور ایس اےسی (Sharia Advisary Council)کے معیار کے مطابق تینتیس فیصد (33%)سے زائد قرضوں کی شرح نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ ڈاؤ جونز (Dow Jounes)کے معیار کی صراحت نہیں مل سکی، بہرحال ہماری معلومات کے مطابق  شریعہ اسکریننگ کرنے والے ہر ادارے کے معیار میں حرام آمدن اور سودی قرضوں سے متعلق ایک مخصوص حد (Limit) ہوتی ہے۔

  1. اس کا جواب سوال نمبر4 كے تحت دیا جا چکا ہے۔
  2. اس کا جواب سوال نمبر1کے جواب کے تحت تفصیل سے دیا جا چکا ہے کہ اگرچہ سودی قرض لینا گناہِ کبیرہ ہے، لیکن اگر کوئی شخص مکمل سودی قرض لے کر جائز اور حلال کاروبار شروع کرے تو اس سے کاروبار حرام نہیں ہوتا، لہذا اس کے ساتھ کاروبار کرنا جائز ہے، البتہ چونکہ سودی قرض کی ادائیگی ابھی قرض لینے والے کے ذمہ باقی ہے، اس لیے اس کے ساتھ کاروبار میں شریک ہوتے وقت یہ طے کرنا ضروری ہے کہ سودی معاہدہ کے تحت واجب شدہ سود کی ادائیگی فریق اول یعنی قرض لینے والے کے ہی  ذمہ ہو گی، تاکہ کاروبار میں شریک ہونے والے شخص کی سود کی ادائیگی میں شرکت لازم نہ آئے۔
حوالہ جات
صحيح مسلم (3/ 1219، رقم الحديث: 1598) دار إحياء التراث العربي – بيروت:
حدثنا محمد بن الصباح، وزهير بن حرب، وعثمان بن أبي شيبة، قالوا: حدثنا هشيم، أخبرنا أبو الزبير، عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»
المعايير الشرعية (صفحة:567):
المساهمة أوالتعامل في أسهم شركات أصل نشاطها حلال ولكنها تودع أو تقترض بفائدة:
1/4/3: أن لا تنص الشركة في نظامها الأساسي أن من أهدافها التعامل بالربا أوالتعامل بالمحرمات كالخنزير وغيره۔
2/4/3: أن لايبلغ إجمالي  المبلغ المقترض بالربا، سواء كان قرضا طويل الأجل أم قرضا قصير الأجل، 30%من القيمة السوقية (Market Cap)لمجموع أسهم الشركة علما بأن الاقتراض بالربا حرام مهما كان مبلغه۔
3/4/3: أن لا يبلغ إجمالي المبلغ  المودع بالربا، سواء كان مدة الإيداع قصيرة أو متوسطة أوطويلة، 30%من القيمة السوقية (Market Cap)لمجموع أسهم الشركة علما بأن الإيداع بالربا حرام مهما كان مبلغه۔
4/4/3: أن لا يتجاوز مقدار الإيراد الناتج من عنصر محرم نسبة 5% من إجمالي إيرادت الشركة سواء كان هذا الإيردا ناتجا عن ممارسة نشا ط محرم أم تملك لمحرم، وإذا لم يتم الإفصاح عن بعض الإيرادات فيجتهد في معرفتها ويراعي جانب الاحتياط۔ 

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

23/جمادی الاولیٰ 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب