021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کی دھمکیاں دینے اور "میرا تمہارا کوئی تعلق نہیں” کہنے کا حکم
74985طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

میری شادی کو ساڑھے تین سال ہوگئے ہیں۔ شادی کے ایک ماہ تک میرے شوہر ٹھیک رہے، اس کے بعد انہوں نے مجھے ہر بات پر طلاق کی دھمکی دی اور میری کوئی ذمہ داری نہیں اٹھائی۔ میرا کام صرف سسرال کی خدمت کرنا اور ان کی باتیں سننا تھا۔ میرے سسر کی نظر خراب ہے، میری ساس کو بھی معلوم ہے، لیکن وہ مجھے چائے دے کر ان کے کمرے میں بھیجتی، میں نے اپنے شوہر سے کہا تو اس نے مجھے کہا کہ تم خراب عورت ہو، ہم خاندانی لوگ ہیں، میں تمہیں طلاق دیدوں گا۔ میں پھر بھی خاموش رہی، اور اپنے آپ کو بچاتی رہی۔ مجھے چھوٹی چھوٹی بات پر میکے چھوڑ آتے تھے۔ میرا حمل ٹھہرا تھا اور اب تک میری ساری ضروریات میرے والدین پوری کر رہے تھے۔ میرے سسر نے میرے والد سے کہا تھا کہ ہمارے ہاں پہلے بچہ کی ولادت کا سارا خرچہ نانا، نانی کی طرف سے ہوتا ہے۔ شادی کے بعد سے اب تک میرے کپڑے اور میرے سارے اخراجات میرے والدین نے اٹھائے۔ میرے شوہر کو بیٹا چاہیے تھا، میں نے سوچا شاید بچہ ہوجائے تو یہ ٹھیک ہوجائے گا، مگر جب بیٹی ہوئی تو وہ مجھے اور بیٹی کو ہسپتال میں چھوڑ کر چلا گیا، اس کے بعد میں نے بہت فون کیا، لیکن اس نے مجھے منع کیا کہ نہ تم اس گھر میں آؤگی، نہ میں تمہارے گھر میں آؤں گا۔ میری بیٹی چار ماہ کی ہوگئی تو میں نے انہیں اس کی تصاویر بھیج دی، مگر کوئی جواب نہیں آیا۔  پھر میرے 2 چچا سسر اور میرا شوہر آیا اور مجھے گھر واپس لے گئے۔ مگر پھر جب بھی مجھے کسی چیز کی ضرورت ہوتی یا بیٹی کے دودھ وغیرہ کی ضرورت ہوتی تو میرے شور کہتے میرے پاس پیسے نہیں ہیں، جاؤ امی (ساس) سے مانگو، لیکن مجھے اچھا نہیں لگتا تھا۔  میں نے ان سے کہا کہ جب آپ کماتے ہیں تو یہ بیٹی آپ کی ذمہ داری ہے، اس پر مجھے نیچ اور گندی عورت کہتے۔ غرض چھوٹی چھوٹی بات پر طلاق کا طعنہ دیتے۔ میرے کمرے کا دروازہ بند کرنے کی مجھے اجازت نہیں تھی۔ میں اگر سورہی ہوتی یا بچی کو دودھ پلارہی ہوتی تو میرے سسر میرے کمرے میں کسی بھی وقت بغیر آواز دئیے داخل ہوجاتے، میرے شوہر کمرے میں موجود ہوتے یا نہ ہوتے، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ میں نے ایک دو دفعہ دبے لفظوں میں ان سے کہا تو الٹا مجھے خراب اور گندی عورت ہونے کا طعنہ دیا۔ ہر بات پر میں تمہیں چھوڑ دوں گا، میرا تم سے کوئی تعلق نہیں، میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتا، جیسی باتیں سننے کو ملتی تھیں۔ ہمارے گھر میں دو گاڑیاں تھیں، جب کہیں جانا ہوتا تھا تو مجھے شوہر کے ساتھ نہیں، سسر اور دیور کے ساتھ گاڑی میں بٹھاتے۔ میں بچی ڈیڑھ سال کی تھی تو اس کا ہاتھ ٹریڈ مل میں آگیا تھا، میں نے شوہر کو فون کیا مگر وہ نہیں آئے، میں دیور اور ساس کے ساتھ ڈرائیور کے ہاں گئی، شوہر رات کے بارہ بجے آئے، مگر نہ بچی کی انگلی دیکھی، نہ آئندہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے، چنانچہ بچی کی انگلی ٹیڑھی ہوگئی۔ آخری رمضان میرے سسر نے میرے شوہر کے لیے بیکری کی دکان کرائی جس پر وہ صبح 7 بجے جاتے، دن میں ایک گھنٹہ کے لیے آتے اور فورا سوجاتے، اٹھ کر دوبارہ بیکری جاتے اور رات ایک ڈیڑھ بجے آتے، پورا ہفتہ یہی روٹین تھی۔ میرے ساتھ بات کرنا بھی چھوڑ دیا۔ رمضان میں افطار کے وقت میری ساس اور نند اوپر صوفے پر بیٹھ کر افطار کرتیں اور مجھے دیور، نندوئی اور سسر کے برابر جگہ پر بیٹھ کر افطار کرنا پڑتا تھا، سسر میرے برابر بیٹھ جاتے اور ٹچ کرتے رہتے۔ پھر میں بہت بیمار ہوگئی، مجھے شدید یرقان ہوگیا، میں کام کرنے کے قابل نہ رہی تو میرے شوہر نے مجھے گھر سے نکال دیا، میرے ہاتھ میں میرا شناختی کارڈ دیا، الماری سے اپنے سارے کپڑے اور چیزیں باہر نکال دیں، اور میرے سسر اور ساس سے کہا کہ میں اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا، اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا، اس کو نکال دیں۔ رات ساڑھے نو بج رہے تھے، میرے سسر اور شوہر مجھے اور میری بیٹی کو 13 جون 2020 کو میکے کے دروازے پر چھوڑ کر چلے گئے۔ اس کے بعد نہ تو کوئی فون اٹھایا، نہ فون کیا۔ کہنے لگے میرا تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک دفعہ میرے شوہر نے مجھے کہا تھا کہ تم نے آپنے آپ کو کسی اور کے نکاح میں دیا ہوا ہے۔ میرا سارا زیور، کپڑے اور بچی کے کپڑے، کھلونے سب وہیں سسرال میں ہے۔ میں صرف تن کے کپڑوں میں آئی، بچی بھی اسی طرح آئی تھی۔ بچی کے ڈاکومنٹس، بے فارم، برتھ سرٹیفیکیٹ، اور میرا پاسپورٹ وغیرہ سب وہیں پر ہے۔ اب میری عزت اور بچی کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ آپ مجھے تصدیق شدہ جواب دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے تو آپ کا شوہر آپ کے نان نفقہ کا خیال نہ رکھنے، مناسب رہائش نہ دینے، اپنی بچی کے اخراجات نہ اٹھانے، بار بار طلاق کی دھمکیاں دینے، اور برا سلوک کرنے کی وجہ سے سخت گناہ گار ہے۔ شوہر پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کے تمام جائز حقوق ادا کرے، بیوی کے جائز حقوق ادا نہ کرنا اور اس کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرنا سخت ناجائز اور گناہ ہے۔  

سوال میں ذکر کردہ طلاق کی دھمکیوں سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ جہاں تک "میرا تمہارا کوئی تعلق نہیں" الفاظ کا تعلق ہے تو ان سے طلاق واقع ہونے یا نہ ہونے کا مدار آپ کے شوہر کی نیت پر ہے۔ اگر اس نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے کہے تھے تو اس سے آپ پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے اور آپ دونوں کا نکاح ختم ہوگیا ہے، لہٰذا آپ عدت یعنی تین ماہواریاں گزرنے کے بعد دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے۔ لیکن اگر آپ کا شوہر کہے کہ میں نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے نہیں کہے تھے اور اس بات پر قسم بھی اٹھالے تو پھر ان الفاظ سے آپ پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اس صورت میں اولاً تو جانبین کے بڑوں کو چاہیے کہ آپ دونوں میں صلح کرائیں، شوہر کو آپ اور آپ کی بچی کے جائز حقوق کی ادائیگی اور حسنِ سلوک پر آمادہ کریں؛ تاکہ آپ دونوں کا گھر آباد ہو۔ لیکن اگر صلح اور نباہ ممکن نہ ہو تو پھر آپ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے، اگر وہ طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو اسے کچھ مالی معاوضہ کے بدلے خلع پر راضی پر کر کے خلع بھی لے سکتی ہے۔   

حوالہ جات
القرآن الکریم، سورة النساء:
{وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ وَإِنْ تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (128) وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا (129) وَإِنْ يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِنْ سَعَتِهِ وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا }( 130).
القرآن الکریم، سورة البقرة:
{فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} ( 229).
الفتاوى الهندية (1/ 375):
ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك، أو قال لم يبق بيني وبينك نكاح يقع الطلاق إذا نوى….. ولو قال: لم يبق بيني وبينك شيء ونوى به الطلاق لا يقع، وفي الفتاوى لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع، كذا في العتابية.
البحر الرائق (3/ 329-328):
وفي جمع برهان: قال لم يبق بيني وبينك عمل ونوى الطلاق لا يقع، وفي فتاوى الفضلى خلافه،  وفي التفاريق: قيل في قوله لم يبق بيني وبينك شيء أنه لا يصح………. وفي البزازية: طلبت منه الطلاق فقال لم يبق بيني وبينك عمل لم تطلق إلا أن ينوي به النكاح وينوي به إيقاع الطلاق فحينئذ يقع……………… وفي الهداية: وفي كل موضع يصدق الزوج على نفي النية إنما يصدق مع اليمين؛ لأنه أمين في الإخبار عما في ضميره، والقول قول الأمين مع اليمين ا هـ

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

23/جمادی الاولی /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب