021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کل جائیداد کو موت کے ساتھ معلق کر کے وقف کرنے کے متعلق ایک صورت کا حکم
75169وقف کے مسائلوقف کے متفرّق مسائل

سوال

میں اپنی جائیداد کے حوالے سے زندگی میں تقسیم اور وراثت کے حوالے سے مندرجہ ذیل سوالات کا جواب آپ سے چاہتی ہوں۔ میرا  نام  طاہرہ خان ہے میں شادی شدہ ہوں اور میری کوئی اولاد نہیں ہے۔ میرے شوہر حیات ہیں اور میں اور میرے شوہر رٹائرڈ ہیں ۔میری کچھ پراپرٹی ہے جو کہ میں  نے اپنی جاب سے حاصل کردہ آمدنی سے بنائی ہے جس کے  کرائے سے اب میرا اور میرے شوہر کا گزر بسر ہے۔ مجھ سے چھوٹے دو بھائی ہیں اور ایک بہن ہے۔ دونوں بھائی شادی شدہ ہیں اور بہن غیر شادی شدہ ہے۔  کیا  میں اپنی تمام جائیداد اپنی زندگی میں اس شرط کے ساتھ کہ میرے اور میرے شوہر کے مرنے کے بعد کسی دینی ادارے کو وقف کردوں یا مجھے اس میں سے اپنے بھن بھائیوں کو  بھی حصّہ دینا پڑے گا؟ اگر بہن بھائیوں کو نہ دوں تو اللہ پاک ناراض تو نہیں ہوں گے؟

وضاحت : سائلہ چاہتی ہیں کہ ان کی جائیداد کل وقف ہو جائے لیکن زندگی میں اس کے منافع ان کے پاس رہیں ، اس کی صورت کیا ہو گی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں اگر آپ اپنی جائیداد کے وقف کو اپنے اور شوہر کی وفات کے ساتھ معلق کرتی ہیں تو یہ  معاملہ وقف کے  بجائے وصیت بن جائے گا اور آپ کی وفات کے بعد  صرف تہائی مال یہ وصیت جاری ہو گی،   باقی دو   تہائی جائیداد آپ کے رشتے داروں میں شریعت کے مطابق تقسیم ہو گی ۔  اس صورت میں کل جائیداد آپ کی وفات تک آپ کی ملکیت میں ہی رہے گی ۔

البتہ اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کی  کل جائیداد وقف بھی ہو جائے  اور آپ اور آپ کے شوہر  کی وفات تک آپ  اس کا کرایہ بھی لیتے رہیں تو اس کا طریقہ یہ ہو گا کہ  آپ اپنی جائیداد کو اپنی زندگی میں   اس شرط کے ساتھ وقف کریں کہ    آپ اور آپ کے  شوہر کی وفات تک آپ وقف کردہ جائیداد کی آمدنی کو اپنے خرچ میں لائیں گے اور پھر آپ دونوں کی وفات کے بعد جائیداد کے منافع اور آمدنی دینی ادارہ کی  طرف منتقل ہو جائیں گے ۔ چنانچہ اس طرح کل جائیداد وقف بھی ہو جائے گی اور آپ  جب تک زندہ ہیں اس کا کرایہ بھی  لے  سکیں گی لیکن  اس صورت میں جائیداد آپ کی ملکیت سے نکل جائے گی ۔  اگر آپ کے بہن بھائی تنگ دست ہوں تو کل جائیداد کا وقف کرنا اچھا نہیں ہے البتہ آپ پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔

حوالہ جات
النهر الفائق شرح كنز الدقائق(3/ 326):
وقوله: إن شرط الواقف يراعى كالنصوص مراده أنه يجب العمل به كالنصوص وهو خلاف ما قاله العلماء، قال شيخ الإسلام: قولهم شرط الواقف كنص الشارع أي: في الولاية والفهم لا في وجوب العمل به وقوله غير أن عند محمد ... ممنوع مما نقله في شرح (السير) وغيره أنه بعدما سلمه له ولاية عزله ويستبدل به وقوله يعني بعض المشايخ معرضاً بأن هلال أدرك بعض أصحاب أبي حنيفة مات سنة خمس وأربعين ومائتين والمشايخ بالاصطلاح يقال: على من دونه ثم من الشراح من فسر قول هلال كما ذكر في (الذخيرة) بأن المراد بالولاية ولاية الملك الثابتة قبل الوقف فإن شرطها لنفسه كانت له ولا يصح الوقف كما قال محمد وإن لم يشترط لم يكن له، وعن هذا قال مشايخنا: الأشبه أن يكون هذا قول محمد وبهذا لا يرد الإشكال الذي أورده في (الهداية) ولحظه الشارح وأجاب عنه بقوله لأنا نقول حينئذ على أنه مردود بما قدمناه عن (السير)
حاشية ابن عابدين ، رد المحتار ط الحلبي :(4/ 433)
(قوله: قولهم ‌شرط ‌الواقف ‌كنص ‌الشارع) في الخيرية قد صرحوا بأن الاعتبار في الشروط لما هو الواقع لا لما كتب في مكتوب الوقف، فلو أقيمت بينة لما لم يوجد في كتاب الوقف عمل بها بلا ريب لأن المكتوب خط مجرد ولا عبرة به لخروجه عن الحجج الشرعية. اهـ. ط. مطلب بيان مفهوم المخالفة.
حاشية ابن عابدين ، رد المحتار ط الحلبي :(4/ 445)
صرحوا بأن ‌مراعاة ‌غرض ‌الواقفين واجبة، وصرح الأصوليون بأن العرف يصلح مخصصا والعرف العام بين الخواص والعوام أن الفريضة الشرعية يراد بها المفاضلة: وهي إعطاء الذكر مثل حظ الأنثيين، ولذا يقع التصريح بذلك لزيادة التأكيد في غالب كتب الأوقاف، بأن يقول: يقسم بينهم على الفريضة الشرعية للذكر مثل حظ الأنثيين ولا تكاد تسمع أحدا يقول على الفريضة الشرعية: للذكر مثل حظ الأنثى لأنه غير المتعارف بينهم في هذا اللفظ.
الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية (2/ 398):
ولو قال: أرضي هذه صدقة موقوفة تجري غلتها على ما عشت ثم بعدي على ولدي وولد ولدي من نسلهم أبدا ما تناسلوا فإن انقرضوا فهي على المساكين. جاز ذلك كذا في خزانة المفتين ولو شرط أن له أن ينفق على نفسه وولده ويقضي دينه من غلته فإذا حدث به الموت كانت غلة هذه الضيعة لفلان بن فلان وولده وولد ولده ونسله وعقبه أو بدأ بما جعل لفلان وأخر ما جعله لنفسه قال الخصاف: تقديمه وتأخيره سواء على أبي يوسف - رحمه الله تعالى - وهو جائز على ما اشترط، كذا في المحيط.
الموسوعة الفقهية (44/ 123):
 لكن يستثنى عند الجمهور الوقف المعلق على الموت، كما إذا قال: إن مت فأرضي هذه موقوفة على الفقراء، فإن الوقف يصح؛ لأنه تبرع مشروط بالموت، ويعتبر وصية بالوقف، وعندئذ يجري عليه حكم الوصية، في اعتباره من الثلث كسائر الوصايا.
درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 132):
(‌أو ‌بالموت ‌إذا ‌علق ‌به) بأن قال إذا مت فقد وقفت داري على كذا ثم مات صح ولزم إن خرج من الثلث؛ لأن الوصية بالمعدوم جائزة كالوصية بالمنافع كما مر ويكون ملك الميت فيه باقيا حكما.

محمد انس جمیل

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

۲۴ ،جمادی الاولٰی ۱۴۴۳ ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب