021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدہ اور بیٹی کا مشترکہ گھر بیٹی کا اپنے نام کرنے کا حکم
75182شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

میرا نام شبانہ ہے۔ میں 7/B مکان نمبر N-1040 سرجانی ٹاؤن میں رہتی ہوں۔ یہ مکان میری امی اور میں نے خود محنت مزدوری کر کے بنایا ہے۔ میرے والد کا انتقال میری شادی سے پہلے ہوگیا تھا۔ یہ مکان ہمیں کسی کی جائیداد میں سے نہیں ملا۔ مجھے شادی کے سات، آٹھ سال بعد طلاق دیدی۔ اب میں اس مکان میں اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہوں جن میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ میرے دو چچا ہیں جو حیدر آباد میں رہتے ہیں اور حیات ہیں۔ میری ایک خالہ تھی جس کا انتقال ہوچکا ہے، اس کے دو بچے ہیں، ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ یہ مکان میری امی کے نام ہے، میں اسے اپنے نام پر کروانا چاہتی ہوں۔ اگر آپ چاہیں تو میں اپنے چچا اور خالہ کے بچوں سے گواہی دلواسکتی ہوں کہ ان کا اس مکان میں کوئی حصہ نہیں۔  آپ فتویٰ دیں کہ اس میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ اگر سوال میں ذکر کرہ صورتِ حال درست ہے اور مذکورہ مکان واقعتا آپ نے اور آپ کی امی نے اپنے پیسوں سے بنایا ہے تو یہ آپ دونوں کی مشترکہ ملکیت ہے، کسی اور کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔ آپ دونوں کی حصہ داری کی تفصیل یہ ہے کہ مکان میں جس کی جتنی رقم لگی ہے، وہ اس کے مطابق حصے کی مالکہ ہے۔ اگر آپ دونوں نے مشترکہ پیسے لگائے ہیں اور ہر ایک کی رقم کا الگ الگ حساب کتاب نہیں کیا، اور پیسے بھی دونوں نے برابر یا تقریبا برابر برابر لگائے ہوں تو پھر یہ مکان آپ دونوں کے درمیان آدھا آدھا مشترک ہوگا۔ صرف والدہ کے نام ہونے سے مکان میں آپ کا حصہ ختم نہیں ہوا۔

(2)۔۔۔ اب اگر آپ کی والدہ زندہ ہیں تو آپ اپنا حصہ تو اپنے نام کرواسکتی ہیں، لیکن ان کا حصہ ان کی رضامندی کے بغیر نہ اپنے نام کرواسکتی ہیں، نہ اس کی مالکہ بن سکتی ہیں۔ البتہ اگر آپ کی والدہ اپنا حصہ اپنی رضامندی سے آپ کو دینا چاہتی ہے تو یہ اس کا صوابدیدی اختیار ہے، وہ دے سکتی ہے۔ تاہم صرف مکان آپ کے نام کرنے سے آپ ان کے حصے کی مالکہ نہیں بنیں گی، بلکہ جب وہ خود اپنا حصہ ہبہ (گفٹ) کر کے آپ کو اس کا قبضہ دے گی تو ان کا حصہ آپ کی ملکیت میں آئے گا۔ قبضہ کی آسان صورت یہ ہے کہ آپ کی والدہ مکان میں موجود اپنا سارا سامان ایک دفعہ باہر نکال لے، تاکہ مکمل مکان پر آپ کا قبضہ ثابت ہوجائے، اس کے بعد وہ اپنا سامان آپ کے مکان میں رکھنا چاہے اور خود بھی آپ کے ساتھ رہ چاہے تو رہ سکتی ہے۔ اگر اس طرح کرنا مشکل ہو تو قبضے کی دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ والدہ پہلے مکان میں موجود اپنا سارا سامان آپ کے پاس بطورِ امانت رکھوائے، اس کے بعد اپنا حصۂ مکان آپ کو ہبہ (گفٹ) کردے، اس طرح ان کے حصے پر آپ کا قبضہ ہوجائے گا اور مکمل مکان آپ کی ملکیت میں آجائے گا، اس کے بعد وہ آپ کے ساتھ رہنا چاہے تو رہ سکتی ہے۔  

(3)۔۔۔ لیکن اگر آپ کی والدہ فوت ہوگئی ہے تو پھر اس مکان میں والدہ کا حصہ ان کے ورثا کا حق ہے۔ اگر آپ کی والدہ کے انتقال کے وقت ان کے والدین، دادا، دادی اور نانی میں سے کوئی زندہ نہیں تھا، اسی طرح ان کے انتقال کے وقت آپ کے علاوہ آپ کا کوئی بہن بھائی بھی زندہ نہیں تھا، آپ کی والدہ کا بھی کوئی بہن، بھائی اور بھتیجا زندہ نہیں تھا، اور مذکورہ خالہ بھی ان سے پہلے وفات پاچکی تھی تو پھر ان کی وارث صرف آپ ہیں، ان کا مکمل حصہ آپ کو ملے گا؛ لہٰذا آپ یہ پورا مکان اپنے نام کرواسکتی ہیں۔ آپ کے چچاؤں، اور خالہ کے بچوں کا اس مکان میں کوئی حصہ نہیں۔

لیکن اگر آپ کی خالہ کا انتقال کا آپ کی والدہ کے انتقال کے بعد ہوا ہو تو پھر آپ کے ساتھ خالہ کے بچوں کو بھی اس مکان میں حصہ ملے گا۔ البتہ اگر وہ اپنا حصہ آپ کو دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، ان کی رضامندی سے پھر آپ پورا مکان اپنے نام کرواسکتی ہیں۔

حوالہ جات
رد المحتار (4/ 325):
 مطلب اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية:  تنبيه: يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز،  فأجاب بأنه بينهما سوية وكذا لو اجتمع إخوة يعلمون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية ولو اختلفوا في العمل والرأي ا هـ  وقدمنا أن هذا ليس شركة مفاوضة ما لم يصرحا بلفظها أو بمقتضياتها مع استيفاء شروطها. ثم هذا في غير الابن مع أبيه لما في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له، ألا ترى لو غرس شجرة تكون  للأب، ثم ذکر خلافا فی المرأة مع زوجها إذا اجتمع بعملهما أموال کثیرة فقیل : هی للزوج و تکون المرأة معینة له، إلا إذا کان لها کسب علی حدة فهو لها، و قیل بينهما نصفان.
بدائع الصنائع (6/ 125):
ومنها أن لا يكون الموهوب مشغولا بما ليس بموهوب؛ لأن معنى القبض وهو التمكن من التصرف في المقبوض لا يتحقق مع الشغل. وعلى هذا يخرج ما إذا وهب دارا فيها متاع الواهب وسلم الدار إليه أو سلم الدار مع ما فيها من المتاع؛ فإنه لا يجوز؛ لأن الفراغ شرط صحة التسليم والقبض، ولم يوجد. قيل: الحيلة في صحة التسليم أن يودع الواهب المتاع عند الموهوب له أولا ويخلي بينه وبين المتاع، ثم يسلم الدار إليه، فتجوز الهبة فيها؛ لأنها مشغولة بمتاع هو في يد الموهوب له.  وفي هذه الحيلة إشكال، وهو أن يد المودع يد المودع معنى، فكانت يده قائمة على المتاع فتمنع صحة التسليم (1).  ولو أخرج المتاع من الدار ثم سلم فارغا جاز، وينظر إلى حال القبض لا إلى حال العقد؛ لأن المانع من النفاذ قد زال، فينفذ كما في هبة المشاع.
(1)حاشیة فقه البیوع (1/400):
و یمکن أن یجاب عن هذا الإشکال بأن ید المودعَ لیست ید المودِع  من کل الوجو ه، و بید ه رد ها متی شاء، قال السرخسی رحمه الله تعالی: "والمعنى فيه أن المودع متبرع في حفظها لصاحبها، والتبرع لا يوجب ضمانا على المتبرع للمتبرع عليه، فكان هلاكها في يده كهلاكها في يد صاحبها، وهو معنى قول الفقهاء رحمهم الله تعالى يد المودع كيد المودع." (المبسوط للسرخسي، أوائل کتاب الودیعة). و إن ید الواهب إنما تمنع تمام الهبة؛ لأنها تمنع تمکن الموهوب له من التصرف فی الموهوب، و لما کان متاع الواهب له بصفة المودَع؛ فإنه لا یمنعه من التصرف، و یمکن له أن یرد المتاع أین شا.
الدر المختار (5/ 692):
وفي الجوهرة: وحيلة هبة المشغول أن يودع الشاغل أولا عند الموهوب له ثم يسلمه الدار مثلأ فتصح لشغلها بمتاع في يده.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

27/جمادی الاولیٰ /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب