021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مال تجارت پر زکاۃ
74535زکوة کابیانسامان تجارت پر زکوۃ واجب ہونے کا بیان

سوال

میرے بڑے بھائی نے 23 نومبر 2020ء کو سینیٹری کا کاروبار شروع کیا اب عیسوی کیلنڈر کے حساب سے اس کے کاروبار کو پورا سال ہونے والا ہے اس دوران وہ مال کی خرید و فروخت کرتا رہا اب اس کے کاروبار کی زکاۃ کس حساب سے ادا کی جائیگی ؟ کارو بار شروع (10) دس لاکھ سے کیا تھا بعد میں اس میں (5)پانچ لاکھ روپے اور لگائے ۔

. اس وقت بھائی کے اوپر مارکیٹ کا قرضہ بھی ہے اور بھائی بھی لوگوں سے پیسے مانگتا ہے۔

. دو  تین مہینے پہلے بھائی نے سینیٹری کی ہول سیل بھی شروع کردی ، اس کے لیے اس نے دو بندوں کو اپنا  پارٹنر  بنایا، ایک سے (3) تین لاکھ کی رقم لے کر کاروبار میں لگائی اور دوسرے سے (6)  چھ لاکھ کی رقم لے کر کاروبار میں لگائی ، کیا ان پیسوں سے لیئے ہوئے مال پر بھی زکاۃ ادا کی جائیگی؟

.ان درج  بالا صورتوں میں زکاۃ نکالنے کی کیا  صورت بنے گی؟

نوٹ: کوئی بھی سامان پورے سال نہیں رکھا رہا سب بک جاتا ہے اور پھر دوسرا سامان منگوالیتے ہیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ شرعی معاملات میں قمری سال کا اعتبار کیا جاتاہے، لہٰذا زکاۃ کا  سال  مکمل ہونے کاحساب بھی قمری مہینے سے کیا جائے گا، نہ کہ شمسی تاریخوں سے، اس لیے کہ شمسی سال قمری سال سے تقریباً   گیارہ دن بڑا ہوتا ہے، تاریخ کی تبدیلی سے ملکیت میں موجود مالیت میں کمی بیشی ہوسکتی ہے، جس بنا پر زکاۃ کی مقررہ مقدار میں کمی بیشی کا امکان رہتاہے، جو ذمہ میں باقی رہ گئی تو مؤاخذہ ہوسکتاہے، لہذا زکاۃ کے سالوں کا حساب قمری  مہینوں کے اعتبار سے ہی کرنا چاہیے۔لہذا آپ چاند کی جس تاریخ کو صاحبِ نصاب ہوئے تھے، ہر سال اس دن اپنے دیگر قابلِ زکاۃ اثاثوں کے ساتھ پوری دکان کے قابلِ فروخت سامان کا جائزہ لے کر مارکیٹ میں اس مال کی قیمتِ فروخت کے حساب سے اس کی مالیت کی تعیین کریں، اس میں سے اپنے اوپر واجب الادا اخراجات  مثلاً جو مارکیٹ کا قرضہ ہے منہا کریں،اور اس کے بعد جتنی مالیت بچے اس کا چالیسواں حصہ یعنی  ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کردیں۔ اور جورقم  آپ نے کسی سے لینی ہے اس کی زکوٰۃبھی  ادا کی جائے گی، خواہ پہلے ہی ادا کر دیں، یا جب وہ وصول کریں تب ادا کر دیں۔

اور جو رقم آپ کے بھائی نے ہول سیل کا کام کرنے کے لیے بطور شرکت لی ہے ، اس میں تفصیل یہ ہے کہ شرکت  کے طور پر دی جانے والی رقم کی زکاۃ مالک کے ذمہ ہی لازم ہے ،لہذا  اگر شرکت میں نفع ہو تو مال کے مالک پر اپنے سرمایہ اور نفع دونوں کی ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگی ،اور آپ کے بھائی جو کہ اس رقم سے کاروبار کر رہے ہیں ،ان پر صرف اپنے حصے  کے نفع کی ڈھائی فیصدزکاۃ لازم ہوگی،جو وہ اپنے کل مال کی زکاۃ ادا کرتے وقت حساب میں لے آئیں گے۔

حوالہ جات
قال العلامہ الحصکفی رحمۃ اللہ علیہ:(وحولها)أي الزكاة (قمري) بحر عن القنية.                  (ردالمحتار:2/294)
وفی الفتاوی الھندیۃ :(ومنها حولان الحول على المال) العبرة في الزكاة للحول القمري كذا في القنية، وإذا كان النصاب كاملا في طرفي الحول فنقصانه فيما بين ذلك لايسقط الزكاة، كذا في الهداية.( الفتاوی الھندیۃ:1/175)
وكان أبو حنيفة يقول أولا يعشرها لقوة حق المضارب حتى لا يملك رب المال نهيه عن التصرف فيه بعد ما صار عروضا فنزل منزلة المالك ثم رجع إلى ما ذكرنا في الكتاب وهو قولهما؛ لأنه ليس بمالك ولا نائب عنه في أداء الزكاة إلا أن يكون في المال ربح يبلغ نصيبه نصابا فيؤخذ منه؛ لأنه مالك له.(العنایۃ شرح الھدایۃ:2/231)
   قال العلامۃالحصکفیؒ:(وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الأداء،وفي السوائم يوم الأداء إجماعا) وعلق عليه ابن عابدين رحمۃ اللہ علیہ:أما إذا أدى من خلاف جنسه فالقيمة معتبرة اتفاقا.(ردالمحتار:2/286)
قال العلامۃ السرخسیؒ:وكذلك زكاة مال التجارة تجب بالقيمة.
(المبسوط للسرخسي:2/190)
قال العلامۃ الکاسانيؒ:لأن الواجب الأصلي عندهما هو ربع عشر العين وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء.(بدائع الصنائع:2/22)

محمد طلحہ شیخوپوری

دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی

40   ربیع الثانی/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب