021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"شراء ما باع باکثر مما باع” کی صورت
75304خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

مفتی صاحب: میں چونکہ پراپرٹی کا کام کرتا ہوں،اب مجھے انوسٹمنٹ چاہیے، اس حوالے سے اگر میں کسی سے فرض کریں دس لاکھ لیتا ہوں اور بدلے میں  دد کنال زمین اس شرط کے ساتھ دے دوں کہ ایک سال بعد  یہی زمین میں واپس پندرہ لاکھ  یا اس وقت کی مارکیٹ قیمت پر خریدوں گا تو کیا تجارت کی یہ صورت جائز ہو گی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خریدوفروخت کے معاملہ میں کوئی ایسی شرط لگا دینا" جو اس معاملہ کے تقاضے کے خلاف ہو، اس معاملہ کے مناسب بھی نہ ہو،  تاجروں کے ہاں غیر معروف ہو  اور اس میں خریدار  یا بیچنے والے میں سے کسی کا نفع ہو " جائز نہیں اور اس سے وہ معاملہ فاسد ہو جاتا ہے،نیز جو شرط سود یا سود کا شائبہ پید  ا کرنے کا ذریعہ بنے اس سے بھی خرید وفروخت  کا معاملہ ناجائز اور فاسد ہو جاتا ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں اس شرط کے ساتھ دس لاکھ کے عوض   زمین بیچنا کہ  بیچنے والاایک سال بعد  یہی زمین   پندرہ لاکھ  یا اس وقت کی  مارکیٹ قیمت پر خرید لے گا جائز نہیں ، اور خرید و فروخت کا یہ معاملہ شرط فاسد  کی وجہ سے  فاسد ہے، نیز    پندرہ لاکھ کے عوض  یا اس وقت کی مارکیٹ قیمت  پر دوبارہ خریدنےکی شرط یا وعدہ کے ساتھ  معاملہ کرنے سے چونکہ  یہ معاملہ  سود کا ذریعہ اور حیلہ  بھی بن جائیگا اس لیے بھی یہ معاملہ ناجائز اور فاسد ہے۔

البتہ  اگر خریدو فروخت کا معاملہ کسی شرط اور وعدہ کے بغیر  ہو جائے اور اس  معاملہ کی وجہ سے لازم ہونے والی قیمت بھی ادا کر دی جائے اور اس کے بعد پھر اتفاقی طور پر بیچنے والا خریدار سے  وہ زمین واپس  زائد  قیمت یا  مارکیٹ قیمت  پر خرید لے تو خرید و فروخت کی یہ صورت   جائز ہو گی۔

حوالہ جات
فتح القدير للكمال ابن الهمام (6/ 442)
كل شرط يقتضيه العقد كشرط الملك للمشتري لا يفسد العقد لثبوته بدون الشرط، وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع؛ لأن فيه زيادة عارية عن العوض فيؤدي إلى الربا، أو؛ لأنه يقع بسببه المنازعة فيعرى العقد عن مقصوده إلا أن يكون متعارفا.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 199)
ولو اشترى ما باع بمثل ما باع قبل نقد الثمن جاز بالإجماع لانعدام الشبهة، وكذا لو اشتراه بأكثر مما باع قبل نقد الثمن.
المغني لابن قدامة (4/ 133)
وَإِنْ بَاعَ سِلْعَةً بِنَقْدٍ، ثُمَّ اشْتَرَاهَا بِأَكْثَرَ مِنْهُ نَسِيئَةً، فَقَالَ أَحْمَدُ، فِي رِوَايَةِ حَرْبٍ: لَا يَجُوزُ ذَلِكَ إلَّا أَنْ يُغَيِّرَ السِّلْعَةَ؛ لِأَنَّ ذَلِكَ يَتَّخِذُهُ وَسِيلَةً إلَى الرِّبَا، فَأَشْبَهَ مَسْأَلَةَ الْعِينَةِ فَإِنْ اشْتَرَاهَا بِنَقْدٍ آخَرَ، أَوْ بِسِلْعَةٍ أُخْرَى، أَوْ بِأَقَلَّ مِنْ ثَمَنِهَا نَسِيئَةً، جَازَ؛ لِمَا ذَكَرْنَاهُ فِي مَسْأَلَةِ الْعِينَةِ. وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَجُوزَ لَهُ شِرَاؤُهَا بِجِنْسِ الثَّمَنِ بِأَكْثَرَ مِنْهُ، إلَّا أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ عَنْ مُوَاطَأَةٍ، أَوْ حِيلَةٍ، فَلَا يَجُوزُ. وَإِنْ  وَقَعَ ذَلِكَ اتِّفَاقًا مِنْ غَيْرِ قَصْدٍ، جَازَ؛ لِأَنَّ الْأَصْلَ حِلُّ الْبَيْعِ، وَإِنَّمَا حُرِّمَ فِي مَسْأَلَةِ الْعِينَةِ بِالْأَثَرِ الْوَارِدِ فِيهِ، وَلَيْسَ هَذَا فِي مَعْنَاهُ، وَلِأَنَّ التَّوَسُّلَ بِذَلِكَ أَكْثَرُ، فَلَا يَلْتَحِقُ بِهِ مَا دُونَهُ. وَاَللَّهُ أَعْلَمُ.

سعد مجیب

دارلافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۵ جمادی الثانی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب