021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدنےبڑابیٹےہونےکی وجہ سےدکان بیٹےکےنام سےخریدی تواس میں میراث ہوگی؟
75621ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

سوال:کیافرماتےہیں مفتیان کرام اس مسئلےکےبارےمیں:میرانام رضوان الدین ولدغیاث الدین ہے،میری چاربہنیں ہیں،ایک فوت ہوگئی ہےاوردوہم بھائی  ہیں،اب پانچ بہن بھائی ہیں اورایک والدہ،والدصاحب فوت ہوچکےہیں۔

والدصاحب نےزندگی میں ایک دکان میرےبڑےبھائی سہیل الدین ولدغیاث الدین کےنام سےخریدی تھی،خریداری کی پوری رقم والدصاحب کی تھی،بڑابیٹاہونےکی وجہ سےسہیل الدین کےنام سےخریدی۔

ابتداء میں دکان کرایہ پردی گئی اورکرایہ والدصاحب لیتےرہے،کچھ عرصہ بعد بھائی سہیل الدین نےدکان پرخودکاروبارکیا،گھرسےدورہونےکی وجہ سےپھردکان کرایہ پردےدی گئی،جو اب بھی کرایہ پرہےاورکرایہ ہم دونوں بھائی اوروالدہ پرخر چ ہوتاہے۔

بھائی سہیل الدین کاکہناہےکہ اس نےوالدصاحب سےان کی حیات میں دکان اورمکان کےبارےمیں پوچھا تھاتواس کےبقول والدصاحب نےاس سےکہادکان تمہاری ہےاورمکان تم دونوں بھائیوں کاہے،اس بات کےبارےمیں مجھے اورکسی بہن کوعلم نہیں  اورنہ ہی مجھ سےیاکسی بہن سےبات کہی ۔

معلوم یہ کرناہےکہ اگردکان فروخت کی جائےتوہم بھائی بہنوں کاشرعی حصہ ہوگایانہیں؟اوراگرہےتوکس کاکتناحصہ ہوگا؟فی الوقت ہم دوبھائی،تین بہنیں اور والدہ ہیں۔امید ہےآپ جلدتحریری جواب مرحمت فرمائیں گے۔میں آپ کاشکرگزاررہوں گا۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگروالدنےزندگی میں  دکا ن بیٹےکومالک بناکراپناتصرف ختم کرکےقبضہ میں بھی دیدی ہوتوپھر یہ دکان بڑےبھائی کی ذاتی ہوگی،اس صورت میں یہ میراث میں شمار نہیں ہوگی اوربڑےبھائی کےعلاوہ دیگربہن بھائیوں اوروالدہ کااس میں کوئی حصہ نہ ہوگا۔

لیکن اگروالدنےزندگی میں  دکان بیٹےکومالک بناکر قبضہ میں نہیں دی،بلکہ خود والدکےقبضےمیں رہی تو پھریہ دکان والدکی ہی شمار ہوگی،بیٹےکی ذاتی نہ ہوگی(اگرچہ والدنےزندگی میں بیٹےکو کہاہوکہ دکان تمہاری ہے،اوربیٹےکےپاس گواہ بھی موجودہوں)اس صورت میں  والدکی وفات کےبعد والدکی میرث شمار ہوگی۔

صورت مسئولہ میں(سائل  کی وضاحت کےمطابق )چونکہ زندگی میں والدنےدکان بڑےبیٹےکےقبضہ  میں نہیں دی،کیونکہ زندگی میں کرایہ خودوالدصاحب وصول کرتےرہےاورکاروباربھی والدصاحب کاتھا،نفع بھی وہی لیتےتھے،بڑےبیٹےکےنام صرف گھرکےبڑےاورسربراہ ہونےکی حیثیت سےکی گئی تھی،اس لیے یہ دکان بڑےبیٹےکی ذاتی شمارنہ ہوگی،بلکہ والدکی  میراث ہوگی اورتمام ورثہ کاوراثت کےمطابق حصہ ہوگا۔

(صرف بیٹےکے نام سےخریدنےیازندگی میں ہبہ کاکہنےسےشرعابیٹےکی ملکیت نہیں  سمجھی جائےگی)

دکان چونکہ میراث ہےتووالدکی وفات کےبعدسےاس کےکرایہ میں تمام ورثہ کاوراثت کےمطابق حصہ ہوگا۔اوراگربیچی جائےتواس کی  قیمت کوبھی شرعی طریقےکےمطابق میراث میں تقسیم کیاجائےگا۔

تقسیم کاطریقہ یہ ہوگاکہ جتنی قیمت ہو،اس کاآٹھواں حصہ والدہ کوملےگا،باقی بہن بھائیوں میں اس طرح تقسیم ہوگاکہ بھائیوں کوبہنوں کےمقابلےمیں دوگناحصہ ملےگا۔

فیصدی اعتبارسےتقسیم کیاجائےتو100فیصدمیں سےوالدہ کو 12.5فیصد، ہربیٹے کو 25فیصد،اورہربیٹی کو 12.5فیصدحصہ ملےگا۔

حوالہ جات
"شرح المجلۃ" 1/741 :اذاعمل رجل فی صنعۃ ھووابنہ الذی فی عیالہ،فجمیع الکسب لذلک الرجل،وولدہ یعد معینالہ،فیہ قیدان احترازیان:الاول ان یکون الابن فی عیال الاب ،الثانی ان یعملامعافی صنعۃ واحدۃ،اذلوکان لکل منہماصنعۃ یعمل فیہاوحدہ فربحہ لہ ۔
" شرح المجلۃ" 1/473 :یملک الموھوب لہ الموھوب بالقبض ،فالقبض شرط لثبوت الملک ۔
"شرح المجلۃ" 1 /462:وتتم(الھبۃ)بالقبض الکامل لأنہامن التبرعات والتبرع لایتم الابالقبض الکامل ۔
قال اللہ تعالی فی "سورۃ النساء" آیت 11:یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکرمثل حظ الانثیین۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

23/جمادی الثانیہ   1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب