021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہن کو قرض کی تصریح کے بغیر رقم دی تو وہ قرض شمار ہوگی یا نہیں؟
75731خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

گذارش ہے کہ میری ایک چھوٹی بہن  ہیں جو کہ ذہنی طور پر پوری صحیح نہیں  ہیں ،ہمارے والد نے ہم سب بہن بھائیوں میں اپنی جائداد شرعاً تقسیم کی ہوئی ہے اور ہم سب بہن بھائی صاحب استطاعت ہیں ، مسئلہ یہ ہے کہ میری بہن کی کرائے کی آمدنی جب رکی ہوئی تھی تو میں نے اپنی بہن کو خرچے کے پیسے دیے تھے ، جب تک ان کی  کرائے داری نہیں لگی تھی ، اب مجھے ان کے کچھ پیسے دینے ہیں ، کیا میں اپنی وہ رقم جو میں نے ان کو دی تھی  مہینہ وار کچھ سالوں تک اس کو  تعین کرکے  ان پیسوں میں ایڈجسٹ کر سکتا ہوں ؟جو مجھے ان کو دینے ہیں ، اس وقت ان کی آمدنی کے علاوہ بھی ان کے  پاس نقد رقم آئی ہوئی ہے اور آرہی ہے وہ کسی طور پر بھی ضرورت مند نہیں ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسؤولہ میں  جس وقت آپ نے اپنی بہن کو پیسے دیے تھے اس وقت اگر قرض کی صراحت کی تھی یعنی آپ نے ان کو قرض کہہ کر دیے تھے یا انہوں نے آپ سے قرض کا مطالبہ کیا تھا جس کے نتیجےمیں آپ نے ان کو پیسے دیے تھے تو اس صورت میں آپ اپنے قرض کی وصولی کے لیے ان  کے پیسوں میں سے کٹوتی کرسکتے ہیں،اور اگر بہن کو پیسے دیتے وقت قرض کی صراحت نہیں کی تھی تو  وہ رقم جو آپ نے ان کو دی تھی وہ آپ کی طرف  سےہدیہ شمار ہوگی اور آپ کے لیے اس رقم  کا مطالبہ  کرنا یا ان کے پیسوں میں سے کٹوتی کرنا یہ جائز نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 161)
القرض (هو) لغة: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعا: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه وهو أخصر من قوله (عقد مخصوص) أي بلفظ القرض ونحوه (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس (مثلي) خرج القيمي (لآخر ليرد مثله) خرج نحو وديعة وهبة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 161)
وحاصله: أن المثلي ما لا تتفاوت آحاده أي تفاوتا تختلف به القيمة فإن نحوه الجوز تتفاوت آحاده تفاوتا يسيرا (قوله لتعذر رد المثل) علة لقوله لا في غيره: أي لا يصح القرض في غير المثلي، لأن القرض إعارة ابتداء، حتى صح بلفظها معاوضة انتهاء، لأنه لا يمكن الانتفاع به إلا باستهلاك عينه، فيستلزم إيجاب المثلي في الذمة، وهذا لا يتأتى في غير المثلي قال في البحر: ولا يجوز في غير المثلي، لأنه لا يجب دينا في الذمة ويملكه المستقرض بالقبض كالصحيح والمقبوض بقرض فاسد يتعين للرد، وفي القرض الجائز لا يتعين بل يرد المثل، وإن كان قائما وعن أبي يوسف ليس له إعطاء غيره إلا برضاه وعارية ما جاز قرضه قرض وما لا يجوز قرضه عارية اهـ أي قرض ما لا يجوز قرضه عارية من حيث إنه يجب رد عينه لا مطلقا لما علمت من أنه يملك بالقبض تأمل.

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

۰۱/رجب۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب