021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایمازون کی تعلیم حاصل کرنا اور اس پر کام کرنے کا حکم
76204جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

آج کل پورے پاکستان میں ایمازون کا کورس کروایا جا رہا ہے ، میں بھی اس کام کو کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ ایمازون سے لوگ لاکھوں روپے کمار ہے ہیں، کیا ایمازون پر کام کر ناجائز ہے ؟ اور اس کام کو سیکھنا کیسا ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایمازون  آن لائن  خرید و فروخت کرنے اور اسی طرح دیگر خدمات فراہم کرنے والی ایک کمپنی ہے جس پر  دنیا بھر کے لوگ  اپنی مصنوعات اور خدمات فراہم کرتے ہیں۔ چنانچہ اس کو استعمال کرنے اور اس پر اپنی مصنوعات فروخت کرنے کیلئے اس  کی تعلیم حاصل کرنا جائز ہے البتہ اس میں خرید و فروخت اور خدمات فراہم کرنے کے حوالے سے  یہ تفصیل ہے کہ ایمازون   پر بہت سے مختلف ماڈلز  استعمال کیے جاتے ہیں، اگر ان میں  درج ذیل  شرائط کی پابندی کی جائے  تو اس پر کام کرنا جائز ہو گا۔

1. بیچے جانے والا سامان فروخت کنندہ کی ملکیت میں ہو  او راس پر فروخت کنندہ یا اس کے وکیل کا    قبضہ ہو گیا ہو۔

2. خرید و فروخت کے معاملے میں کسی  قسم کے دھوکے اور غلط بیانی  سے کام نہ لیا گیا ہو۔

3.     جو چیز فروخت کی جا رہی ہے اس کی خرید و  فروخت  شرعاً جائز ہو۔

4. خریداروں کو رشوت دے کر سامان خریدنے اور ریٹنگ دینے پر  ابھار ا نہ گیا ہو۔

البتہ اگر  ایمازون پر کام کرنے کی کوئی جدید صورت ہو  یا  کوئی خاص مسئلہ ذہن میں ہو تو اس کی تفصیل لکھ  کر اس کے متعلق  دوبارہ پوچھا جا سکتا ہے۔

حوالہ جات
صحيح المسلم ،( ج:۳ ؍۱۱۵۹ ،ط:دار إحیاءالتراث العربي):
"عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من ابتاع طعاماً فلايبعه حتى يستوفيه»، قال ابن عباس: وأحسب كل شيء مثله."
سنن الترمذي،( 2/597، دار الغرب  الاسلامی):
"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة من طعام، فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا، فقال: يا صاحب الطعام، ما هذا؟، قال: أصابته السماء يا رسول الله، قال: أفلا جعلته فوق الطعام حتى يراه الناس، ثم قال: من غش فليس منا."
بدائع الصنائع،( 5/146، ط: دار الكتب العلمية):
(ومنها) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد.
حاشية ابن عابدين ، (ج:۵ ؍۱۴۷، ۱۴۸،ط:سعید(:
(لا) يصح ... (بيع منقول) قبل قبضه ولو من بائعه ... والأصل أن كل عوض ملك بعقد ينفسخ بهلاكه قبل قبضه فالتصرف فيه غير جائز ... وفي المواهب: وفسد بيع المنقول قبل قبضه، انتهى. ونفي الصحة يحتملهما ... (قوله: ونفي الصحة) أي الواقع في المتن يحتملهما أي يحتمل البطلان والفساد والظاهر الثاني؛ لأن علة الفساد الغرر كما مر مع وجود ركني البيع، وكثيراً ما يطلق الباطل على الفاسد أفاده ط.
مجلة الاحكام العدلية،( 1/52، ط: نور محمد):
للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضه إن كان عقارا وإلا فلا۔

محمد انس جمیل

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

یکم، رجب المرجب 1443 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب