021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق نہ دینے کے ارادے سے تین مرتبہ زبانی طلاق کے الفاظ کہنا
79280طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

میں نے ایک مطلقہ لڑکی سے شادی کی، شادی کے تین دن بعد اس کے سابقہ شوہر نے دھمکی دینا شروع کی  کہ اگر تم نے شوہر سے طلاق نہ لی تو میں تمہارے بچوں کو مار دوں گا، اس عورت کے سابقہ شوہر سے تین بچے ہیں، بارہ دن گزرنے کے بعد رات کو سابقہ شوہر نے اپنے سسر کے سر پر پستول رکھ کر کہا اگر آپ نے رات بارہ بجے تک طلاق نہ لی تو میں بچوں کو مار دوں گا، میں نے اپنی بیوی سے کہا میرا طلاق دینے کا اردہ نہیں اور نہ میں طلاق دوں گا، اس پر میری بیوی نے کہا آپ ایک وائس میسج کر دو، تاکہ وہ میرے بچوں کو نہ مارے، میں وائس میسج کیا، جس میں میں نے تین بار طلاق کہا اور میں نے بیوی سے کہا کہ تم یہ میسج نہ سننا، صرف اس کو بھیج دو۔ سوال یہ ہے کہ کیا میری بیوی کو طلاق ہو گئی یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ اکراہ یعنی زبردستی کی صورت میں بھی زبانی طلاق واقع ہو جاتی ہے، کیونکہ ایسی صورت میں آدمی اپنے لیے ہلکی چیز کا انتخاب کرتے ہوئے اپنے اختیار سے طلاق دیتا ہے اور مذکورہ صورت میں تو اکراہ کا تحقق بھی نہیں ہوا، کیونکہ آپ کی اہلیہ کو دھمکی دی گئی تھی، نہ کہ آپ کو، اس لیے آپ کے حق میں یہ اکراہ شرعاً معتبر نہیں، نیز صریح طلاق میں نیت ہونا ضروری نہیں، بلکہ  صریح الفاظ سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں آپ کے اپنی بیوی کو تین مرتبہ طلاق کے الفاظ  کہنے سے اس پر تین طلاقیں واقع ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو چکی ہے، اب ان دونوں کا اکٹھے رہنا ہرگز جائز نہیں۔ نیز اب رجوع نہیں ہو سکتا اور  موجودہ صورتِ حال میں دوبارہ نکاح  کرنا بھی جائز نہیں، البتہ اگر عورت عدت گزارنے کے بعد کسی اور شخص سے  نکاح کرے اور وہ خاوند عورت سے ہمبستری بھی کرے، پھر وہ اپنی رضامندی سے عورت کو طلاق دیدے یا وہ وفات پا جائے تو اُس خاوند کی عدت گزارنے کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ ورنہ نہیں۔

حوالہ جات
 الفتاوى الهندية (1 / 473) دار الفكر، بیروت:
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز۔
المبسوط للسرخسي (24/ 40) دار المعرفة، بيروت:
الرجل يجبره السلطان على الطلاق، والعتاق، فيطلق، أو يعتق، وهو كاره إنه جائز واقع، ولو شاء الله لابتلاه بأشد من هذا، وهو يقع كيفما كان، وبه أخذ علماؤنا - رحمهم الله -، وقالوا: طلاق المكره، واقع سواء كان المكره سلطانا، أو غيره أكرهه بوعيد متلف، أو غير متلف.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 130) دار الفكر-بيروت:
(قوله: أو حبس) أي حبس نفسه قال الزيلعي: والإكراه بحبس الوالدين أو الأولاد لا يعد إكراها لأنه ليس بملجئ ولا يعدم الرضا بخلاف حبس نفسه اهـ لكن في الشرنبلالية عن المبسوط: أنه قياس وفي الاستحسان حبس الأب إكراه وذكر الطوري أن المعتمد أنه لا فرق بين حبس الوالدين والولد في وجه الاستحسان زاد القهستاني: أو غيرهم: من ذوي رحم محرم وعزاه للمبسوط.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراتشی

12/رجب المرجب 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب