021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہن کوکم حصہ میراث دینا
75882میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام وراثت کے درج ذیل مسئلہ کے بارے میں 1998 میں میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا تھا،ان کےشرعی ورثہ میں دوبیٹے،ایک بیٹی اوروالدین شامل تھے۔ انتقال کے وقت میرے والدصاحب کی ملکیت میں ایک فلیٹ(جو کہ بعد میں دس لاکھ روپیہ کا بیچ دیا تھا) ، ایک گھر (جو کہ بعد میں29 لاکھ روپیہ کا بیچ دیا تھا) اور 17 لاکھ روپیہ گریجویٹی جو کہ انتقال کے بعد ان کی آرگنائزیشن کی طرف سے ملے تھی۔ شریعت کی طرف سے مقررہ حصوں کے مطابق میراث کی تقسیم نہیں ہوئی تھی، بلکہ بہن کو اماں نے چار ہزار امریکن ڈالر دئیے تھے اور وہ آج بھی اسی پر خوش ہے اور کہتی ہے کہ مجھےمزید کچھ نہیں چاہئے۔ بقیہ رقم سے ہم نے ایک گھر خریدا تھا جس کے تین پورشن ہیں ایک میرے ملکیت میں ایک دوسرے بھائی کی ملکیت میں اور ایک والدہ کی ملکیت میں جبکہ دادا اور دادی نے اس وقت لکھ کر دیا تھا کہ ہمیں میراث میں کچھ نہیں چاہیے مذکورہ بالا صورت حال میں درج ذیل دو سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

   بہن کو چار ہزار ڈالر ہم نے دئیے تھے اور اسی پر خوش ہے اور ابھی بھی وہ کہہ رہی ہے کہ مجھے مزید کوئی چیز نہیں چاہئے تو شریعت کے مقررہ حصہ تک دینا ہم پر لازم ہے یا وہ چار ہزار ڈالرکافی ہے،مزید کوئی چیز دینے کی ضرورت نہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرچہ عام عادت کے مطابق بہن اپنا حصہ لینے سے انکار ہی کرتی ہویا معاف بھی کردے،لیکن اس کا شرعااعتبار نہیں،لہذابہن کو اس کا پورا حصہ دیا جانا ضروری ہے،البتہ لینے کے بعد وہ اپنے اختیار اور خوشی سے جس کو چاہے اپنا پورا حصہ یا اس میں سے کچھ دے سکتی ہے۔(احسن الفتاوی:ج۹،ص۲۷۹)البتہ اگر بہن نے کم حصہ میراث لیتے وقت اپنے پورے حصہ  سے کم پر رضامندی ظاہر کردی ہو تو اس طرح اس کا معاف کرنا درست ہوجائے گا۔(احسن الفتاوی:ج۹،ص۲۷۶)

حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۷ رجب۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب