021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین طلاق ایک ساتھ دینے کا حکم
76005طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

میرے شوہر نے مجھے غصے میں تین طلاق ایک ساتھ دیدیں۔ اس کے اگلے دن انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو گھر آکر معافی مانگی اور اس رات وہ گھر میں الگ سوئے۔ میرے گھر والے مجھے اپنے ساتھ لے گئے، ان کی ایک نہیں سنی، وہ روز دروازے پر آتے ہیں، مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن میرے گھر والے ان سے بات کرنے نہیں دیتے۔ وہ کہتا ہے میں نے تمہیں نہیں چھوڑا ہے، وہ پہلے دن سے مجھے اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اس بات کو نو (9) مہینے گزرچکے ہیں۔

آپ سے گزارش ہے اس مسئلے میں ہماری مدد کریں؛ کیونکہ میں بھی اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ میں نے اپنی ایک عالمہ سہیلی سے پوچھا تھا، انہوں نے مجھے بتایا کہ اگر آپ چاہتی ہیں تو آپ کا دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے اور اس بات کی اجازت ہمیں اللہ تعالیٰ اور قرآن دیتا ہے۔ مجھے اس مسئلے میں فتویٰ دیجیے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ تین طلاق ایک ساتھ دینا جائز نہیں، گناہ کا کام ہے، لیکن اگر کوئی شخص ایسا کرے تو تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کا شوہر تین طلاقیں ایک ساتھ دینے کی وجہ سے گناہ گار ہوا ہے، لیکن آپ پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور آپ دونوں کے درمیان حرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی ہے، اب نہ آپ کا شوہر رجوع کرسکتا ہے، نہ تحلیل کے بغیر آپ دونوں دوبارہ آپس میں نکاح کرسکتے ہیں۔  آپ کی سہیلی کی مذکورہ بات درست نہیں۔

اب اگرآپ دونوں دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں تو اس کی صرف ایک صورت ہے،اور وہ یہ کہ عدت  یعنی طلاق کے بعد تین ماہواریاں گزرنےکےبعد آپ کا کسی دوسرے شخص  سے گواہوں کی موجودگی میں مقررہ مہر کے بدلے نکاح ہوجائے، دوسرا شوہر ہمبستری کے بعد اپنی مرضی سےآپ کو طلاق دے یا ہمبستری کے بعد اس کا انتقال ہوجائے، اس کے بعد دوسرےشوہرکی عدت گزرجائے توپھر آپ دونوں باہم رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئےمہر پر دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔  اس کے علاوہ اب آپ دونوں کے درمیان نکاح کی کوئی صورت ممکن نہیں۔

حوالہ جات
القرآن الکریم:
{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ} [البقرة: 230]
صحيح البخاري (7/ 42):
حدثنا سعيد بن عفير قال حدثني الليث قال حدثني عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني عروة بن الزبير أن عائشة أخبرته أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله! إن رفاعة طلقني فبت طلاقي وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسل:م لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة، لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته.
حدثني محمد بن بشار حدثنا يحيى عن عبيد الله قال حدثني القاسم بن محمد عن عائشة أن رجلا طلق امرأته ثلاثا فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم أتحل للأول؟ قال: لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول.  
الدر المختار (3/ 232):
( والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين ) في طهر واحد ( لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه ، أو ) واحدة في ( حيض موطوءة ).. الخ
رد المحتار (3/ 232,233):
( قوله والبدعي ) منسوب إلى البدعة والمراد بها هنا المحرمة لتصريحهم بعصيانه بحر ( قوله ثلاثة متفرقة ) وكذا بكلمة واحدة بالأولى ، وعن الإمامية : لا يقع بلفظ الثلاث ولا في حالة الحيض لأنه بدعة محرمة ….وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث…….( قوله في طهر واحد ) قيد للثلاث والثنتين ….الخ

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

    10/رجب /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب