021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیعِ استصناع میں شیئِ مصنوع اور اس کی قیمت کی زکوۃ کس پر واجب ہوگی؟
76060زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

چار دوستوں نے  ایک کمرشل پلاٹ خریدا، سب کی شرکت برابر تھی۔اس پلاٹ کے بارے میں  پلان یہ تھا کہ اس کے گراونڈ فلور پر دکانیں اور بقیہ اوپر کی 5منزلوں میں رہائشی فلیٹ تعمیر کر کےفروخت کریں گے لیکن یہ ایسے نہیں ہو گا کہ پہلے ہم مکمل اپنی رقم سے تعمیر کریں اور پھر تکمیل کے بعد فروخت شروع کریں، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ استصناع کے عقد کے تحت لوگ بکنگ کر انا شروع کر دیتے ہیں، اقساط کی ادائیگی شروع ہو جاتی ہے اور تعمیرات کا کام بھی شروع ہو جاتا ہے۔ تمام دوکانوں بمع فلیٹس کی بکنگ اور تعمیرات میں کم سے کم 3 سے 4 سال لگ جاتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ جن 4 دوستوں نے مل کر یہ پروجیکٹ شروع کیا تھا،وہ جب زکوة نکالیں گے تو اس کی زکوة کیسے ادا کی جائے گی؟مثلا زاہد ﴿صانع﴾شریک مالکان میں سے ایک مالک ہے اور یاسر ﴿مستصنع﴾نے ایک فلیٹ کی بکنگ کی ہے۔جب یاسر اور زاہد کی زکوٰة کی ادائیگی کا وقت آیا تو یاسر 2 لاکھ روپے﴿کل قیمت فروخت 20 لاکھ﴾ اقساط کی مد میں ادا کر چکا تھا، جبکہ زاہد یہ رقم بلڈنگ کی تعمیرات میں صرف کر چکا تھا، یہ بھی ممکن ہے کہ زاہد نے فلیٹ چوتھی منزل پر بک کرایا ہو جبکہ بلڈنگ کاابھی تک صرف گراونڈ فلور مکمل ہوا ہو۔  اسی طرح یہ بھی ہوتا ہے کہ مثلا گراونڈ فلور پر کل 10 دکانیں ہیں جبکہ ان میں سے فروخت ابھی تک 3 ہوئی ہیں، بقیہ مالکان کی مشترکہ ملک ہیں لیکن ان کی تعمیر میں رقم ان لوگوں کی ادا کردہ اقساط کی ہے جن کے فلیٹس اوپر کی منزلوں میں ہیں جن کو ابھی تعمیر ہونا ہے۔تو اس صورت میں صانع اور مستصنع (1) ادا شدہ اقساط، (2) کل قیمت کی بقیہ اقساط ،(3) تعمیر شدہ ﴿جن کی بکنگ بھی ہو چکی﴾ دکانوں یا فلیٹس، یا تعمیر شدہ ﴿لیکن بکنگ ابھی نہیں ہوئی﴾ دکانوں یا فلیٹس کا اپنی زکوة کی ادائیگی میں کیسے اعتبار کریں گے؟ (4) یہاں ایک دوسری مشکل یہ ہے کہ ابتداء جو کمرشل پلاٹ خریدا گیا تھا ،3  سے  4  سال  کے  تعمیراتی  عرصے  کے  دوران  زکوة  کی  ادائیگی  میں  اس  پلاٹ  میں  مالکان  کی  ملکیت  کا  کیسے  اعتبار  کیا  جائے؟  قواعد  کے  مطابق  کمرشل  پلاٹ  کی  خالی  زمین  کے  مالک  گراونڈ  فلور  کی  دوکانوں  کے  مالکان  ہوتے  ہیں  جبکہ  اوپر  کی  منزلوں  والوں  کو  صرف  عمارت  فروخت  کی  جاتی  ہے۔  یعنی  اگر  شروع  کے  مالکان  اوپر  کے  تمام  فلیٹس  فروخت  کردیں  لیکن    زکوة  کی  ادائیگی  کے  وقت  کوئی  دکان  فروخت  نہ  ہوئی  ہو  تو  زمین  کے  مالک  وہی  شمار  ہوں  گے۔  اسی  طرح  اگر  کچھ  دوکانیں  فروخت  ہوئی  ہوں  اور  کچھ  رہ  گئی  ہوں  تو  بھی  اسی  نسبت  سے  ان  کی  ملکیت  ہو  گی۔ 

اس  پوری  صورتِ حال  میں  صانع  اور  مستصنع  کی  زکوة  کا  کیا  حکم  ہو  گا؟  صانع  نے  جو  رقم  مستصنع  سے  وصول  کر  لی  لیکن  ابھی  تک  تعمیرات  میں  صرف  نہ  ہوئی  ،  کیا    صانع    اور  مستصنع  اپنی  زکوة  کی  ادائیگی  میں اس  کا  اعتبار  کریں  گے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ بیعِ استصناع میں مبیع یعنی مصنوع چیز مستصنع کو دینے سے پہلے صانع کی ملکیت ہوتی ہے، لہٰذا اس کی زکوۃ بھی صانع پر لازم ہوگی۔ البتہ جب وہ بلڈنگ مستصنع کے حوالے کردے تو پھر اس کی زکوۃ صانع پر لازم نہیں ہوگی۔ جہاں تک بیعِ استصناع کی قیمت کا تعلق ہے تو قیمت کی جو قسطیں صانع وصول کرچکا ہو وہ صانع کی ملکییت ہوتی ہے، لہٰذا زکوۃ کی تاریخ آنے پر اس میں سے جتنی رقم موجود ہوگی اس کی زکوۃ صانع پر لازم ہوگی، شیئِ مصنوع مستصنع کے حوالے کی ہو یا نہ۔ البتہ جو قسطیں صانع نے وصول نہ کی ہو تو اگر اس نے ابھی  تک شیئِ مصنوع کا قبضہ مستصنع کو نہیں دیا تو ان قسطوں کی زکوۃ اس پر لازم نہیں ہوگی، لیکن اگر شیئِ مصنوع کا قبضہ اس کو دیدیا ہے تو پھر باقی ماندہ اقساط کی زکوۃ بھی صانع پر لازم ہوگی، اگر وہ وصولی سے پہلے ان کی زکوۃ ہر سال ادا کرتا رہے تو اس کا ذمہ فارغ ہوگا، اور اگر وصولی کے بعد زکوۃ دینا چاہے تو اس کی بھی گنجائش ہے، لہٰذا پھر جب رقم وصول ہوگی تو گذشتہ تمام سالوں (یعنی جب سے شیئِ مصنوع کا قبضہ خریدار کو دیا ہوگا اس وقت سے اب تک) کی زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔  

اس تمہید کے بعد مذکورہ صورت کا حکم یہ ہے کہ:

  1. ادا شدہ اقساط کی زکوۃ تمام شرکاء پر لازم ہوگی، اگر زمین اور بلڈنگ میں ان کی شرکت برابر برابر ہے تو زکوۃ بھی سب پر برابر برابر آئے گی، اور اگر شرکت کا تناسب کم و بیش ہو تو زکوۃ بھی اسی اعتبار سے کم و بیش لازم ہوگی۔
  2. جن دکانوں یا فلیٹس کا قبضہ ابھی خریداروں کو نہ دیا گیا ہو، ان کی بقیہ اقساط کی زکوۃ ان چار شرکاء پر لازم نہیں ہوگی۔ البتہ اگر کوئی دکان یا فلیٹ خریدار کے حوالے کردی گئی اور اس کی کچھ قسطیں باقی ہوں تو ان قسطوں کی زکوۃ تمام شرکاء پر لازم ہوگی۔
  3. تعمیر شدہ دکانیں اور فلیٹس جب تک خریداروں کے حوالے نہیں کیے جائیں گے، ان کی زکوۃ ان چاروں شرکاء پر لازم ہوگی، چاہے ان کی بکنگ ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ اسی طرح بلڈنگ بنانے کے لیے جو میٹیریل خریدا گیا ہو، اس کی زکوۃ بھی ان چاروں شرکاء پر لازم ہوگی۔
  4. عقدِ استصناع کے تحت بنائی جانے والی دکانوں میں سے جو دکانیں فروخت  کر کے مالکان کے سپرد کردی جائیں، ان کی زمین اور تعمیر دونوں کی زکوۃ بیچنے والے ان چاروں شرکاء پر لازم نہیں ہوگی۔ لیکن جو دکانیں ابھی خریداروں کے سپرد نہیں کی گئیں، چاہے ان کی بکنگ ہوئی ہو یا ابھی بکنگ بھی نہ ہوئی ہو، ان کی زمین اور تعمیر دونوں کی زکوۃ ان چاروں شرکاء پر لازم ہوگی۔
حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (12/ 242):
وكان الحاكم الشهيد يقول: الاستصناع مواعدة وإنما ينعقد العقد بالتعاطي إذا جاء به مفروغا عنه ولهذا ثبت فيه الخيار لكل واحد منهما، والأصح أنه معاقدة فإنه أجرى فيه القياس والاستحسان، والمواعيد تجوز قياسا واستحسانا. ثم كان أبو سعيد البردعي يقول: المعقود عليه هو العمل لأن الاستصناع اشتغال من الصنع وهو العمل فتسمية العقد به دليل على أنه هو المعقود عليه والأديم والصرم فيه بمنزلة الآلة للعمل، والأصح أن المعقود عليه المستصنع فيه وذكر الصنعة لبيان الوصف فإن المعقود هو المستصنع فيه، ألا ترى أنه لو جاء به مفروغا عنه لا من صنعته أو من صنعته قبل العقد فأخذه كان جائزا، والدليل عليه أن محمدا قال: إذا جاء به مفروغا عنه فللمستصنع الخيار؛ لأنه اشترى شيئا لم يره وخيار الرؤية إنما يثبت في بيع العين فعرفنا أن المبيع هو المستصنع فيه.
بدائع الصنائع (5/ 3)
 فصل: وأما حكم الاستصناع  فهو ثبوت الملك للمستصنع في العين المبيعة في الذمة، وثبوت الملك للصانع في الثمن ملكا غير لازم، على ما سنذكره إن شاء الله تعالى.
فقه البیوع (1/605-601):
أحکام المصنوع:
3- و المصنوع قبل التسلیم ملك للصانع، و لهذا ذکر الفقهاء رحمهم الله تعالیٰ أنه یجوز له أن
یبیعه من غیره………… الخ
4- إن المصنوع قبل التسلیم مضمون علیه، فیتحمل الصانع جمیع تبعات الملك من صیانته و حفظه، فإن هلك قبل التسلیم هلك من مال الصانع.
 أحکام ثمن الاستصناع:
3- الثمن المدفوع مقدما عند إبرام العقد مملوك للصانع، یجوز له الانتفاع و الاسترباح به، و تجب علیه الزکاة فیه….…. الخ

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

    14/رجب /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب