021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
یتیم بچوں کی کفالت کے حق دار چچا ہوں گے یا ماموں؟
76066طلاق کے احکامبچوں کی پرورش کے مسائل

سوال

میرے بڑے بھائی میرم خان چند دن پہلے فوت ہوگئے ہیں، ان کی ایک سگی بہن اور چھ باپ شریک بھائی حیات ہیں۔ مرحوم نے چار شادیاں کی تھیں: پہلی بیوی سے ان کے پانچ بچے (دو لڑکے اور تین لڑکیاں) ہیں جو بالغ ہیں، یہ بیوی زندہ ہے، مرحوم نے انہیں گھر دیا ہے جس میں یہ تقریبا پندرہ سال سے بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ دوسری بیوی سے چار بچے (3 بیٹیاں اور ایک بیٹا) ہیں، دو بیٹیاں بالغہ ہیں، ایک  16  سال کی ہے، دوسری  14 سال کی ہے، جبکہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوٹے ہیں، بیٹا گیارہ بارہ سال کا ہے، اور بیٹی نو، دس سال کی ہے، یہ بیوی فوت ہوگئی ہے۔ تیسری شادی سے ایک ہی بیٹا ہے، یہ بیوی بھی کینسر کی وجہ سے فوت ہوگئی ہے۔ چوتھی شادی سے دو سال کا ایک بچہ اور آٹھ مہینے کی ایک بچی ہے، یہ بیوی زندہ ہے۔ مرحوم آخری بیوی اور سابقہ دو بیویوں کے بچوں کے ساتھ اسلام آباد میں رہائش پذیر تھا، مرحوم کا انتقال 2 فروری 2022 کو ہوا ہے۔ مرحوم کی پہلی بیوی اور بچے جو کہ صاحبِ روزگار ہیں، مرحوم کے بچوں اور آخری بیوی کو لینے سے انکاری ہیں، جبکہ بچوں کے چچا (والد کے باپ شریک بھائی) دوسری، تیسری اور چوتھی سب بیویوں کے بچوں کی نگرانی کے لیے تیار ہیں۔   

تنازع یہ ہے کہ دوسری بیوی کے بھائی یعنی ساجد اپنے چار بھانجوں کی سرپرستی کے لیے بضد ہے، حالانکہ ہم یعنی بچوں کے چچا کفالت کے لیے تیار ہیں، اور مرحوم کی آخری بیوی (جو ان بچوں کی سوتیلی ماں ہے) بھی ان کو لینے کے لیے تیار ہے۔ سوال یہ ہے کہ شریعت کی رو سے ان یتیم بچوں کی کفالت کا زیادہ حق دار کون ہے؟ سوتیلی ماں، سگا ماموں، یا پھر سوتیلے چچا یعنی مرحوم کے باپ شریک بھائی؟

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ ان بچوں کے دادا، دادی اور نانی کا انتقال ہوگیا ہے، اور سگا چچا ان کا نہیں ہے۔ یہ ماموں ان بچوں کو ساتھ لے جانے کی بات نہیں کر رہا ہے، یہ کہہ رہا ہے کہ ان کا اختیار میرے پاس ہوگا، ان کے سارے کام میری مرضی سے ہوں گے۔ مرحوم کی پہلی بیوی سے جو دو لڑکے ہیں، وہ دونوں دبئی میں ہوتے ہیں۔ بچے ہمارے پاس خوش ہیں، اور کہتے ہیں ہم اپنے ہی گھر  میں رہنا چاہتے ہیں۔  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ سوال کے جواب سے پہلے بچوں کی کفالت سے متعلق اصول بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، اور وہ یہ کہ:

  • لڑکے کی عمر سات سال ہونے تک، اور لڑکی کے بالغ ہونے تک کفالت کا حق ماں کو ہوتا ہے، اس کے بعد یہ حق نانی کو ملتا ہے، اس کے بعد دادی کو، اور اس کے بعد بہنوں کو۔  
  • لڑکے کی عمر سات سال ہونے پر اور لڑکی کے بالغ ہونے پر ان کی کفالت کا حق باپ کو ملتا ہے، اس کے بعد دادا کو، اس کے بعد سگے بھائیوں کو، اس کے بعد باپ شریک بھائیوں کو، اس کے بعد ماں شریک بھائیوں، اس کے بعد سگے چچاؤں، اس کے بعد باپ شریک چچاؤں کو، اور اس کے بعد ماں شریک چچاؤں کو یہ حق ملتا ہے۔
  • مَردوں کے حق میں بچوں کی کفالت کے لیے عصبہ ہونا شرط ہے، اور ماموں شرعا عصبات میں داخل نہیں، اس لیے اسے بھانجوں اور بھانجیوں کی کفالت کا حق نہیں ملتا۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ صورتِ مسئولہ میں ان بچوں کی کفالت کے اولین حق دار ان کے بھائی ہیں، اگر وہ کفالت نہیں کرتے (جیساکہ سوال میں مذکور ہے) تو پھر ان کے چچا ان کی کفالت کے حق دار ہیں۔  ماموں کو شرعا کفالت کا حق حاصل نہیں؛ لہٰذا ماموں کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ ان کی کفالت کا حق مجھے ہے۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع (4/ 41):
فصل: وأما بيان من له الحضانة  فالحضانة تكون للنساء في وقت وتكون للرجال في وقت، والأصل فيها النساء لأنهن أشفق وأرفق وأهدى إلى تربية الصغار ثم تصرف إلى الرجال؛ لأنهم على الحماية والصيانة وإقامة مصالح الصغار أقدر ولكل واحد منهما شرط فلا بد من
بیان شرط الحضانتین و وقتهما:-
أما التي للنساء: فمن شرائطها أن تكون المرأة ذات رحم محرم من الصغار، فلا حضانة لبنات العم وبنات الخال وبنات العمة وبنات الخالة؛ لأن مبنى الحضانة على الشفقة، والرحم المحرم هي المختصة بالشفقة. ثم يتقدم فيها الأقرب فالأقرب، فأحق النساء من ذوات الرحم المحرم بالحضانة الأم لأنه لا أقرب منها، ثم أم الأم، ثم أم الأب……...ثم الأخوات .……. ..و أولی الأخوات الأخت لأب وأم، ثم الأخت لأم، ثم الأخت لأب…… الخ
وأما وقت الحضانة  التي من قبل النساء فالأم والجدتان أحق بالغلام حتى يستغني عنهن فيأكل وحده ويشرب وحده ويلبس وحده كذا ذكر في ظاهر الرواية, وذكر أبو داود بن رشيد عن محمد ويتوضأ وحده يريد به الاستنجاء أي ويستنجي وحده ولم يقدر في ذلك تقديرا،  وذكر الخصاف سبع سنين أو ثمان سنين أو نحو ذلك،  وأما الجارية فهي أحق بها حتى تحيض كذا ذكر في ظاهر الرواية………… وأما غير هؤلاء من ذوات الرحم المحرم من الأخوات والخالات والعمات إذا كان الصغير عندهن، فالحكم في الجارية كالحكم في الغلام وهو أنها تترك في أيديهن إلى أن تأكل وحدها وتشرب وحدها وتلبس وحدها ثم تسلم إلى الأب، وإنما كان كذلك؛ لأنها وإن كانت تحتاج بعد الاستغناء إلى تعلم آداب النساء، لكن في تأديبها استخدامها وولاية الاستخدام غير ثابتة لغير الأمهات من الأخوات والخالات والعمات، فتسلمها إلى الأب احترازا عن الوقوع في المعصية.
وأما التي للرجال: فأما وقتها فما بعد الاستغناء في الغلام إلى وقت البلوغ وبعد الحيض في الجارية إذا كانت عند الأم أو الجدتين، وإن كانا عند غيرهن فما بعد الاستغناء فيهما جميعا إلى وقت البلوغ لما ذكرنا من المعنى.  
 وإنما توقت هذا الحق إلى وقت بلوغ الصغير والصغيرة؛ لأن ولاية الرجال على الصغار والصغائر تزول بالبلوغ كولاية المال، غير أن الغلام إذا كان غير مأمون عليه فللأب أن يضمه إلى نفسه ولا يخلي سبيله كيلا يكتسب شيئا عليه، وليس عليه نفقته إلا أن يتطوع، فأما إذا بلغ عاقلا واجتمع رأيه واستغنى عن الأب وهو مأمون عليه فلا حق للأب في إمساكه، كما ليس له أن يمنعه من ماله فيخلي سبيله فيذهب حيث شاء،  والجارية إن كانت ثيبا وهي غير مأمونة على نفسها لا يخلي سبيلها ويضمها إلى نفسه، وإن كانت مأمونة على نفسها فلا حق له فيها ويخلي سبيلها وتترك حيث أحبت، وإن كانت بكرا لا يخلي سبيلها وإن كانت مأمونة على نفسها؛ لأنها مطمع لكل طامع ولم تختبر الرجال فلا يؤمن عليها الخداع.
وأما شرطها فمن شرائطها العصوبة فلا تثبت إلا للعصبة من الرجال ويتقدم الأقرب فالأقرب الأب ثم الجد أبوه وإن علا ثم الأخ لأب وأم ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب………….….. الخ

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

    18/رجب /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب