021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اہل میت کا گھر میں کھاناپکانا
76293جنازے کےمسائلجنازے کے متفرق مسائل

سوال

كسی گھرمیں كوئی فوت ہو جائے تو فوتگی كے دوسرے یا تیسرے دن اہلِ خانہ اپنے گھر میں چائے یا سالن وغیرہ بنا سكتے ہیں یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جس گھر میں میت ہوجائے وہاں کھانا پکانے کے لیے چولہا جلانے کی پہلے دب بھی  کوئی ممانعت نہیں،اور نہ ہی اس میں کوئی عار یا عیب کی بات ہے،اس لیے اگر اہل میت ہمت کر کے غم کے باوجود اپناکھانے پینے کا نظام بھی خود ہی سنبھالیں،توشرعااس میں کوئی حرج نہیں،بلکہ اس طرح کرنےمیں صبرکےاظہار سےاجروثواب ملنےکی امید ہے،تاہم دوسروں(اعزہ واقرب اور پڑوسیوں )کے لیےمستحب یہ ہے کہ البتہ میت والوں کےشدت غم اور صدمے کی وجہ سے اور تجہیز وتکفین کے انتظام میں ان کی مشغولیت کی وجہ سے  اہل میت اور ان کے مہمانوں کے لیے بقدر ضرورت(کسی خاص تکلف کے بغیر) ایک دن ایک رات تک کے کھانے کا انتظام کریں،اور دور سے آئے ہوئے مہانوں کے لیے دوسرے اور تیسرے دن بھی کھانے کا انتظام کرنے میں کوئی حرج نہیں،البتہ بطور رسم کے ایک دن سے زائد کھانے کے انتظام کو بعض فقہاء کرام نے مکروہ لکھا ہے۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل:ج۴،ص۲۳۰)

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 240)
 (قوله وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله - صلى الله عليه وسلم - «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ
فتاوى قاضيخان (3/ 247)
و لا بأس بأن يكون حمل الطعام إلى أهل المصيبة وهو في اليوم الأول غير مكروه لشغلهم بجهاز الميت وفي اليوم الثاني مكروه إذا اجتمعت النياحة لأنه إعانة لهم على الإثم والعدوان 
الفتاوى الهندية (5/ 344)
حمل الطعام إلى صاحب المصيبة والأكل معهم في اليوم الأول جائز لشغلهم بالجهاز، وبعده يكره، كذا في التتارخانية.

 
 

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

یکم شعبان۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب