021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرآن مجید کے بوسیدہ اوراق کی ری سائیکلنگ کا حکم
76256جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ قرآن مجید کے بوسیدہ اوراق کی ریسائیکلنگ جائز ہے یا نہیں؟ ہمارے ہاں خیبر پختون خواہ میں بعض لوگوں نے ایک فیکٹری بنائی ہے جس میں وہ ضعیف قرآن مجیدوں اور اور مقدس اوراق کی ری سائیکلنگ کر کے اس سے گتا بناتے ہیں۔ چند علما نے اس فیکٹری کا دورہ کیا اور دیکھا کہ اس میں اکثر اس طرح کے قرآن مجید بھی کرش کرتے ہیں جس کے صرف گتے خراب ہوں، باقی بالکل قابلِ تلاوت ہوں۔ اس سے جو گتا بنتا ہے، وہ کس چیز میں استعمال ہوتا ہے؟ فیکٹری والے اس کا کسی کو خبر نہیں دیتے، تاہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم اس گتا کو دوبارہ قرآنِ مجید میں استعمال کرتے ہیں۔ چند علما کی کوششوں سے یہ فیکٹری بند ہوگئی تھی، لیکن بعض دیگر علما نے جواز کا فتوی دیا، اور فیکٹری دوبارہ کھل گئی۔ فیکٹری والے دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت کے محکمہ اوقاف کی طرف سے ہمیں اجازت ملی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا شرعا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو کن شرائط کے ساتھ؟ اور اگر ناجائز ہے تو مدلل فتویٰ دیں؛ تاکہ بوقتِ ضرورت ہمارے مدعیٰ کی تائید و توثیق ہو۔  

وضاحت: سائل نے مذکورہ فیکٹری کی ری سائیکلنگ کی ایک ویڈیو بھی وٹس ایپ پر سوال کے ساتھ بھیجی ہے۔ ویڈیو میں نظر آرہا ہے کہ زمین میں تندور جیسی جگہ بنائی گئی ہے جس میں مشین لگی ہے، اوپر زمین پر بوسیدہ قرآن اور مقدس اوراق رکھے ہوئے ہیں۔ اس تندور نما جگہ میں وہ پانی ہے جس میں مقدس اوراق کی ری سائیکلنگ کی جاتی ہے، اس میں قرآنی اوراق اور بعض پورے پورے قرآن ایسے ڈالے جاتے ہیں جیسے واشنگ مشین میں کپڑے ڈالے جاتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔۔ بوسیدہ قرآنِ مجید جو قابلِ تلاوت نہ رہے، کے بارے میں فقہائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ ان کو پاک کپڑے میں لپیٹ کر ادب کے ساتھ کسی ایسی پاک جگہ پر دفنایا جائے جہاں سے لوگوں کا عام گزر نہ ہو، یا پھر انہیں ادب کے ساتھ دریا وغیرہ پاک پانی میں بہایا جائے۔ اس لیے حتی الامکان ان دونوں طریقوں میں سے کسی ایک پر عمل کرنا چاہیے۔ البتہ اگر ان پر عمل میں کوئی مشکل در پیش ہو، اور بوسیدہ اوراق کے ادھر ادھر ضائع ہونے کا اندیشہ ہو جس میں ان کی بے ادبی بھی لازم آتی ہے تو پھر مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ ان کی ری سائیکلنگ کی گنجائش ہے:-

  1. اصل مقصد اور نیت قرآنِ کریم کے بوسیدہ اوراق کو جا بجا پڑے رہنے، ضائع ہونے، اور بے ادبی سے بچانا ہو۔  
  2. صرف ایسے مقدس اوراق کی ری سائیکلنگ کی جائے جنہیں تلاوت کے لیے رکھنا اور ان میں تلاوت کرنا مشکل ہو۔ ایسے قرآن مجید جن کا صرف گتا پرانا ہوا ہو، باقی قرآنِ مجید قابلِ تلاوت ہو، ان کی ری سائیکلنگ جائز نہیں ہوگی، بلکہ نئی جلد بندی کر کے ان کی حفاظت کرنااور ان کو متعلقہ جگہوں میں دوبارہ تلاوت کے لیے مہیا کرنا  لازم اور ضروری ہوگا۔
  3.  ری سائیکلنگ کے لیے جو کیمیکل اور پانی استعمال ہو، ان میں کوئی ناپاک چیز شامل نہ ہو۔
  4. ری سائیکلنگ کے عمل میں حصہ لینے والے ملازمین باوضو ہوں، اور کوئی بھی شخص قرآن کریم کو بے وضو ہونے کی حالت میں نہ چھوئے۔
  5. جس جگہ پر مقدس اوراق کی ری سائیکلنگ ہو، اس کی صفائی کا خاص خیال رکھا جائے۔  
  6. ری سائیکلنگ سے پہلے مقدس اوراق کو اونچی، مناسب اور صاف ستھری جگہ مثلا ٹیبل وغیرہ پر رکھا جائے۔
  7. ری سائیکلنگ کے لیے مقدس اوراق کو لا پرواہی کے ساتھ عام چیزوں کی طرح مشین میں نہ پھینکا جائے، بلکہ ادب کے ساتھ اٹھا کر پلانٹ اور مشین میں رکھا جائے۔  
  8. ری سائیکلنگ کے عمل میں جو پانی استعمال ہو، اسے کسی پاک دریا یا ندی وغیرہ میں بہایا جائے، عام نالیوں یا  راستوں میں بہانا جائز نہیں ہوگا۔

ان تمام شرائط کا خلاصہ یہ ہے کہ ری سائیکلنگ کے عمل میں اول سے آخر تک قرآنِ کریم کی کوئی بے ادبی نہ کی جائے؛ لہٰذا مقدس اوراق کی ری سائیکلنگ کے لیے مناسب معیارات (SOPs) بنائے جائیں اور پھر ان پر سختی سے عمل در آمد کیا جائے۔  

مذکورہ بالا تمام شرائط کا لحاظ کرنے کی صورت میں ری سائیکلنگ کے عمل کو بے ادبی کہنا بظاہر درست نہیں؛ کیونکہ ادب اور بے ادبی کا عمومی مدار عرف پر ہوتا ہے، اور ری سائیکلنگ بوسیدہ اوراق کو ٹھکانے لگانے کا ایک جدید طریقہ ہے جس میں اگر مذکورہ بالا شرائط کا لحاظ کیا جائے تو اسے عرفا بے ادبی نہیں سمجھا جاتا؛ لہٰذا جس طرح فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے مقدس بوسیدہ اوراق کو ضیاع اور اہانت سے بچانے کے لیے دریا میں بہانے کی گنجائش دی ہے، اسی طرح اس صحیح نیت کے ساتھ مناسب اور با ادب طریقے پر  ان کی ری سائیکلنگ کی بھی گنجائش ہونی چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب  

جہاں تک سوال کے ساتھ بھیجی گئی ویڈیو کا تعلق ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ فیکٹری میں ری سائیکلنگ کے عمل کے دوران قرآنِ مجید کے ادب کا لحاظ نہیں رکھا جاتا، جہاں قرآنِ پاک رکھے ہوئے ہیں وہ جگہ بہت میلی کچیلی ہے، صفائی ستھرائی بالکل نہیں ہے، ویڈیو میں مقدس اوراق اور قرآن پاک زمین پر رکھے ہوئے نظر آرہے ہیں، اور ملازمین انہیں عام اشیاء کی طرح اٹھا کر اس مشین میں ڈال رہے ہیں، یہ طریقہ سخت بے ادبی پر مشتمل ہے جس سے بچنا لازم اور ضروری ہے۔ فیکٹری والوں پر لازم ہے کہ ری سائیکلنگ کے پورے عمل میں قرآنِ کریم کے ادب کا خصوصی خیال رکھیں، جیساکہ اس کی تفصیل اوپر بیان کی گئی، اور اس مقصد کے لیے اپنے تمام ملازمین کی تربیت اور ٹریننگ کا اہتمام کریں، نیز کسی مستند عالمِ دین سے وقتا فوقتا مشورہ اور راہنمائی بھی لیتے رہیں۔  

 (2)۔۔۔ بوسیدہ قرآن مجید اور مقدس اوراق کی ری سائیکلنگ کے بعد اصل اور بہتر یہی ہے کہ ان سے دوبارہ قرآنِ مجید اور دینی کتب کے لیے کاغذ یا گتا بنایا جائے۔ البتہ اگر ری سائیکلنگ کے بعد بننے والا مالیدہ کسی دوسرے ایسے جائز مقصد کے لیے استعمال کیا جائے جس میں بے ادبی کا کوئی پہلو نہ ہو، مثلا عام کتابیں، لفافہ وغیرہ تو اس کی بھی گنجائش ہے؛ کیونکہ ری سائیکلنگ کے بعد اوراق سے لکھائی اور سیاہی ختم ہوجاتی ہے اور روئی کے مشابہ جو مالیدہ سا باقی رہ جاتا ہے، اس پر  قرآنی اوراق کا اطلاق نہیں ہوتا۔  لیکن کسی ایسے مقصد کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا جس میں بے ادبی کا پہلو ہو، مثلا ٹشو پیپر وغیرہ۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

حوالہ جات
الدر المختار (1/ 177):
فروع: المصحف إذا صار بحال لا يقرأ فيه يدفن كالمسلم.
رد المحتار (1/ 177):
قوله ( يدفن ) أي يجعل في خرقة طاهرة ويدفن في محل غير ممتهن لا يوطأ.  وفي الذخيرة: وينبغي أن يلحد له ولا يشق له؛ لأنه يحتاج إلى إهالة التراب عليه وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقفا بحيث لا يصل التراب إليه فهو حسن أيضا ا ه.  وأما غيره من الكتب فسيأتي في الحظر والإباحة أنه يمحى عنها اسم الله تعالى وملائكته ورسله ويحرق الباقي ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي أو تدفن وهو أحسن ا هـ  
قوله ( كالمسلم ) فإنه مكرم، وإذا مات وعدم نفعه يدفن، وكذلك المصحف فليس في دفنه إهانة له، بل ذلك إكرام خوفا من الامتهان.
الدر المختار (6/ 422)
 الكتب التي لا ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي، ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي، أو تدفن، وهو أحسن كما في الأنبياء.
رد المحتار (6/ 422):
قوله ( الكتب إلخ ) هذه المسائل من هنا إلى النظم كلها مأخوذة من المجتبى كما يأتي العزو إليه.  قوله ( كما في الأنبياء ) كذا في غالب النسخ، وفي بعضها كما في الأشباه، لكن عبارة المجتبى والدفن أحسن كما في الأنبياء والأولياء إذا ماتوا، وكذا جميع الكتب إذا بليت وخرجت عن الانتفاع بها، اه، يعني أن الدفن ليس فيه إخلال بالتعظيم؛ لأن أفضل الناس يدفنون.
وفي الذخيرة: المصحف إذا صار خلقا وتعذر القراءة منه لا يحرق بالنار إليه، أشار محمد، وبه نأخذ. ولا يكره دفنه، وينبغي أن يلف بخرقة طاهرة ويلحد له؛ لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه وفي ذلك نوع تحقير، إلا إذا جعل فوقه سقف. وإن شاء غسله بالماء، أو وضعه في موضع طاهر لا تصل إليه يد محدث ولا غبار ولا قذر تعظيما لكلام الله عز وجل، اه.
الفتاوى الهندية (5/ 323):
المصحف إذا صار خلقا لا يقرأ منه ويخاف أن يضيع يجعل في خرقة طاهرة ويدفن، ودفنه أولى من وضعه موضعا يخاف أن يقع عليه النجاسة أو نحو ذلك.  
البحر الرائق (1/ 213):
محا لوحا يكتب فيه القرآن واستعمله في أمر الدنيا يجوز.
الفتاوى الهندية (5/ 322):
ولو محا لوحا كتب فيه القرآن واستعمله في أمر الدنيا يجوز.
الفتاوی التاتارخانیة (18/69):
وفي مسائل الملتقط:ورسائل تستغنى عنهاوفيها اسم الله تعالى يمحى، ثم يلقى في الماءالكثير، واتخذ منه قراطيس كان أفضل.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

    4/شعبان/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب