021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میت کے شوہر اور والدین میں میراث کی تقسیم
76833میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

          میری بیوی کا انتقال ہوگیا ہے، میری ایک مہینے کی بیٹی تھی، ۱۵ دن بعد اس کا بھی انتقال ہوگیا،مجھے میراث کے معاملے میں معلومات لینی تھی تاکہ جو کچھ بھی میری زوجہ کا تھا اس سب سامان کو اس کے ورثاء میں تقسیم کردیا جائے۔ میری زوجہ کے والد اور والدہ ہیں اور میں ہوں،شرعی اعتبار سے میراث کو کس طرح اور کتنی جلدی تقسیم کیا جاسکتا ہے؟سامان میں جو اس خاتون کے گھر والوں نے دیا تھا اس میں کچھ چیزیں میرے گھر میں استعمال ہورہی تھیں ،ان کو  استعمال کرنا بند کردیا ہے، اس کا کیا کیا جائے رہنمائی فرمادیجیے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت کی تعلیم کے مطابق میراث جلد از جلد تقسیم کرنی چاہیے تاکہ ورثاء کو ان کا حق بروقت مل جائے،صورت مسؤولہ میں وفات سے قبل آپ کی زوجہ کی ملکیت میں جو کچھ سامان،جائداد،مکان،دوکان،پلاٹ،سونا چاندی،زیورات،نقدی،کپڑےاوربرتن وغیرہ موجود تھا وہ سب آپ کی زوجہ کا ترکہ(وراثت) شمار ہوگا،وراثت کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ تجہیز وتکفین کے اخراجات کے بعد اگر مرحومہ کے ذمے کوئی قرضہ تھا تو سب سے پہلے ان کے مال وراثت میں سے قرضہ ادا کیا جائے،پھر اگر کوئی وصیت کی ہو تو کل ترکہ کے ثلث(3/1) تک اس پر عمل کیا جائے،اور پھربقیہ  وراثت کے مال کو کل 13 حصوں میں تقسیم کیا جائے،8 حصےمرحومہ کے شوہر کو،2 حصے مرحومہ کے والد کو اور3 حصےمرحومہ کی والدہ کوملیں گے۔فیصدی اعتبار سے مرحومہ کی وراثت میں سے مرحومہ کے شوہر کو61.53فیصد،مرحومہ کے والد کو 15.38 فیصد اورمرحومہ کی والدہ کو23.07فیصدحصہ ملے گا۔

واضح رہے کہ وفات سے قبل آپ کی زوجہ کی ملکیت میں جو کچھ  سامان وغیرہ تھا وہ سب ترکہ میں شمار ہوگا،لہٰذا خاتون کے گھر والوں نے جو کچھ سامان مرحومہ کو بطور ملکیت کے جہیز میں دیا تھا وہ سارا سامان ترکہ میں شامل ہوکر مذکورہ بالا ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

حوالہ جات
أحكام القرآن للجصاص (3/ 9)
وإن كانت واحدة فلها النصف فنص على نصيب ما فوق الابنتين وعلى الواحدة.
أحكام القرآن للجصاص (3/ 10)
ولأبويه لكل واحد منهما السدس مما ترك إن كان له ولد يوجب ظاهره أن يكون لكل واحد منهما السدس مع الولد ذكرا كان الولد أو أنثى لأن اسم الولد ينتظمهما
{فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ} [النساء: 12]

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

 ۱۷/شوال۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب