021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کاروبار میں معاونت کی بنیاد پر والد کی وفات کے بعد سارا کاروبار اپنے نام کرلینا
80141میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرا نام ابوہریرہ ہے،میں رحیم یار خان پنجاب کا رہائشی ہوں،کاروبار کی وراثت کے حوالے سے میرے نانا حاجی علم الدین بھٹی مرحوم نے تقریبا 1978 میں اپنے سرمایے سے بازار میں ایک کرایہ کی دکان لے کر مٹھائی کا کاروبار شروع کیا تھا،یہ کاروبار بڑھتا گیا،پھر اپنے سرمائے سے ہی مٹھائی بنانے کے لئے ایک کارخانہ بھی خود کی ملکیت میں لیا،کاروبار اچھا چلتا رہا اور اس سے جائیداد اور اثاثے بھی بنے،پھر میرے نانا نے تقریبا 1990 میں سپورٹ کے لئے اپنے بڑے بیٹے عبدالناصر کو اپنے ساتھ کاروبار میں بطور ٕعامل شامل کیا،میرے نانا کی وفات 28 جولائی 2015 کو ہوئی،جبکہ مرحوم کی وراثت کی تقسیم کے لئے 3مئی 2019 کو ایک پنچائیت مقرر کی گئی،جس میں مرحوم کے تین عدد رہائشی مکان اور ایک عدد خالی پلاٹ شامل تھا جس کی مالیت دو کروڑ مقرر کی گئی،یہ جائیداد مرحوم نے زندگی میں ہی اسی مٹھائی کے کاروبار کے آمدن سے بنائی تھی،جس میں بڑے ماموں عبدالناصر کے حصے میں بھی اس وقت کی مالیت کے اعتبار سے 2692307 کی جائیداد آئی اور میرے نانا مرحوم کے جس کاروبار سے یہ دوکروڑ کی جائیداد بنی،اس کاروبار کو بھی میرے ماموں عبدالناصر نے یہ کہہ کر اپنے نام کرلیا کہ میں نے اس کاروبار کا دس لاکھ کا  کاروباری قرضہ اتارا تھا،اس لئے یہ کاروبار صرف میرا ہوا۔

واضح رہے کہ یہ دس لاکھ کاروباری قرض میرے ماموں نے اسی کاروبار کی آمدن سے اتارا تھا اور وہ قرض بھی ماموں کے شامل ہونے کے بعد ہی ہوا تھا،اس پنچائیت میں میرے ایک ماموں عثمان قاسمی کو کاروبار  کے علاوہ جو دو کروڑ کی جائیداد تھی،صرف اس میں سے حصہ دیا گیا اور اب 2023 میں میری والدہ کو حصہ دینا چاہتا ہے جو کہ 2019 میں طے ہوا تھا،لیکن اب کم از کم جائیداد سات کروڑ کی ہے،میں اور میری والدہ اس پنچائیت میں موجود نہ تھے،ہم نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ کاروبار کے منافع میں بھی ہم شامل ہوں گے،اس وقت تک بننے والے تمام اثاثوں میں بھی ہم شامل ہوں گے،کیا ہمارا فیصلہ درست ہے،اگر درست ہے تو اس کی تقسیم کیسے ہوگی،میرے نانا کی ایک بیوہ،پانچ بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ کاروبار آپ کے نانا نے اپنے ذاتی سرمایے سے شروع کیا تھا اور بعد میں بڑے بیٹے کو صرف عامل کے طور پر کاروبار میں شامل کیا،بڑے بیٹے کا کاروبار میں کوئی سرمایہ نہیں لگا،اس لئے بڑے بیٹے کا والد کے کاروبار کو صرف اپنے نام کرنا درست نہیں تھا،بلکہ اس میں نانا کی وفات کے وقت زندہ  دیگر تمام ورثہ کا حصہ تھا،جسے ان کے شرعی حصوں کے مطابق ان کے حوالے کرنا ضروری ہے۔

لہذا آپ کا مطالبہ اس حد تک تو درست ہے کہ نانا کے کاروبار اور ان کی وفات کے وقت تک اس کی آمدن سے بنائے گئے اثاثہ جات میں سے آپ کو حصہ دیا جائے،البتہ نانا کی وفات کے بعد بقیہ ورثہ کی رضامندی کے بغیر ان کے کاروبار کو اپنے نام کرکے ان کے بڑے بیٹے نے جو نفع حاصل کیا ہے ، اس نفع میں سے صرف اتنی مقدار اس بیٹے کے لئےجائز ہے جو سرمایہ میں موجود اس کے حصے سے حاصل ہوا ہے،دیگر ورثہ کے حصوں سے حاصل ہونے والے نفع کواستعمال میں لانا جائز نہیں ہے،بلکہ اسے یا تو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیں یا دیگر ورثہ کو ان کے حصوں کے مطابق دے دیں۔

تاہم اگر اس بڑے بیٹے کو والد نے کاروبار میں معاونت کی کوئی اجرت طے کرکے نہ دی ہو تو اسے میراث میں اپنے حصے سے اضافی اتنے عرصے کی محنت کا معاوضہ اجرت مثل کی صورت میں لینے کا حق حاصل ہے،جسے درج ذیل باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے طے کیا جائے گا:

ا۔یہ اندازہ لگایا جائے کہ اگر کوئی ملازم اس قسم کا کام کرتا تو اس کی ماہانہ یا سالانہ تنخواہ کتنی ہوتی۔

۲۔یہ اندازہ کم از کم دو ایسے غیر جانبدار لوگوں سے لگوایا جائے،جنہیں اس کاروبار کی نوعیت کا علم ہو،مارکیٹ سے وابستہ لوگ ہوں تو زیادہ بہتر رہے گا۔

۳۔یہ بھی مدنظر رہے کہ بھائی اس کاروبار سے اپنے ذاتی اور گھریلو اخراجات بھی وصول کرتے رہے ہیں،اس لیے انہیں بھی اس مجموعی تنخواہ سے منہا کیا جائے گا۔

۴۔اتنی تنخواہ مقرر کرنا درست نہیں ہوگا، جس کی وجہ سے دیگر ورثہ کا اکثر حصہ ختم ہوجائے اور ان کے حصے میں کچھ باقی نہ رہے،یا نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔

نیز مرحوم نانا کے ترکہ(یعنی وہ سونا،چاندی،نقدی،جائیداد،کاروبار یا ان کے علاوہ کوئی بھی چھوٹا بڑا سامان جو وفات کے وقت ان کی ملکیت میں تھا) میں  سے ٪12.5 ان کی بیوہ کو،٪13.461 ان کے ہر بیٹے کو،جبکہ ٪6.73 ان کی ہر بیٹی کو ملے گا۔

حوالہ جات
"العناية شرح الهداية "(9/ 330):
"الغاصب إذا تصرف في المغصوب أو المودع في الوديعة وربح فيه لا يطيب له الربح عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله، خلافا لأبي يوسف - رحمه الله - وقد مر في الدلائل. وجوابهما في الوديعة أظهر لما ذكرنا أنه لا يستند الملك إلى ما قبل التصرف لانعدام سبب الضمان، فكان التصرف في غير ملكه مطلقا فيكون الربح خبيثا".
"مجمع الضمانات "(ص: 130):
"ولو استعمل المغصوب بأن كان عبدا فأجره فالأجرة له، ولا تطيب له فيتصدق بها.
وكذا لو ربح بدراهم الغصب كان الربح له، ويتصدق به، ولو دفع الغلة إلى المالك حل للمالك تناولها كما في الهداية".
"رد المحتار" (4/ 325):
" الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب ... وفي الخانية: زوج بنيه الخمسة في داره وكلهم في عياله واختلفوا في المتاع فهو للأب وللبنين الثياب التي عليهم لا غير".
"الأشباه والنظائر " (ص: 230):
"استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعمل له".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

27/شوال 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے