021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہن کا بھائی سے میرا ث میں سے حصے کا مطالبہ کرنا
77247میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

حاجی محمد صدیق فوت ہوگیا ہے،اس کی اولاد میں تین بیٹے ہیں اور پانچ بیٹیاں ہیں،ان میں سے ایک بیٹی میراث کا مطالبہ کرتی ہے تو ا س کی دوسری بہنیں اس کو کہتی ہیں کہ ہم اپنے بھائیوں سے حصہ نہیں لیں گے آپ بھی نہ لیں،لہذا شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرعی لحاظ سے جس طرح میراث میں لڑکوں کا حصہ متعین ہے اسی طرح لڑکیوں کا بھی حصہ متعین ہے،لہذا جو بہن اپنے حصے کا مطالبہ کررہی ہے،دیگر بہنوں کو اسے منع کرنے کا حق حاصل نہیں اور بھائیوں پر بھی لازم ہے کہ اس بہن کو بغیر کسی قسم کی ناراضگی کے خوشی سے اس کا حق حوالے کردیں۔

اس کے علاوہ جو بہنیں اپنا حصہ معاف کرنا چاہتی ہیں،اس کے حوالے سے تفصیل یہ ہے کہ  جب تک مرحوم باپ کی ساری یا بعض جائیداد اپنی اصل شکل میں موجود ہو اس وقت تک ان بہنوں کا حق ان کے زبانی  معاف کرنے سے معاف نہیں ہوگا،بلکہ بھائیوں کے ذمے ان کا حصہ ان کے حوالے کرنا ضروری ہے،اپنے حق پر قبضہ کرنے کے بعد اگر وہ چاہیں تو دوبارہ اپنے بھائیوں کو ہبہ کرسکتی ہیں۔

البتہ اگر بھائی نے میراث کے مال میں کوئی ایسا تصرف کیا ہے جس کی وجہ سے میراث کا مال اپنی اصلی شکل میں باقی نہیں رہا،مثلا زمین وغیرہ کو بیچ دیا ہے تو اس کی وجہ سے بہنوں کا حق اعیان )اشیاء(سے منتقل ہوکر بھائی کے ذمے دین بن گیا ہے اور دین سے عفو و ابراء صحیح ہے،اس لیےاس صورت میں  اصولی طور پر تو بہنوں کے معاف کرنے سے معاف ہوجائے گا۔

لیکن جہاں بھائیوں سے حصہ نہ لینے کا دستور ہو وہاں طیبِ خاطر کا یقین نہ ہونے کی وجہ سے صرف معافی تلافی پر اکتفاء کرنا کافی نہیں،بلکہ بہنوں کا حصہ ان کے حوالے کردیا جائے،اس کے بعد اگر وہ اپنی خوشی سے بھائی کو واپس دینا چاہیں تو بھائی لے سکتا ہے،لیکن چونکہ اس صورت میں بھی طیبِ خاطر کا یقین ہونے کے باوجود ایسا کرنے سے جاہلیت کی اس رسم اور ظلم کی تائید ہوتی ہے،اس لیے واپس لینے سے گریز کیا جائے۔(احسن الفتاوی:9/279)

حوالہ جات
"غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائرللحموي" (3/ 354):
" لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك، والحق يبطل به حتى لو أن أحدا من الغانمين قال قبل القسمة: تركت حقي بطل حقه، وكذا لو قال المرتهن: تركت حقي في حبس الرهن بطل،كذا في جامع الفصولين للعمادي، وفصول العمادي .
قوله: لو قال الوارث: تركت حقي إلخ. اعلم أن الإعراض عن الملك أو حق الملك ضابطه أنه إن كان ملكا لازما لم يبطل بذلك كما لو مات عن ابنين فقال أحدهما: تركت نصيبي من الميراث لم يبطل لأنه لازم لا يترك بالترك بل إن كان عينا فلا بد من التمليك وإن كان دينا فلا بد من الإبراء، وإن لم يكن كذلك بل ثبت له حق التملك صح كإعراض الغانم عن الغنيمة قبل القسمة كذا في قواعد الزركشي من الشافعية ولا يخالفنا إلا في الدين، فإنه يجوز تمليكه ممن هو عليه.
قوله: كذا في جامع الفصولين. يعني في الثامن والثلاثين وعبارته: قال أحد الورثة برئت من تركة أبي؛ يبرأ الغرماء عن الدين بقدر حقه لأن هذا إبراء عن الغرماء بقدر حقه فيصح ولو كانت التركة عينا لم يصح. ولو قبض أحدهم شيئا من بقية الورثة وبرئ من التركة وفيها ديون على الناس لو أراد البراءة من حصة الدين صح لا لو أراد تمليك حصته من الورثة لتمليك الدين ممن ليس عليه".
"تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق" (5/ 49):
"قال - رحمه الله - (وإن أخرجت الورثةأحدهم عن عرض أو عقار بمال، أو عن ذهب بفضة، أو بالعكس) أي عن فضة بذهب (صح قل، أو كثر) يعني قل ما أعطوه أو كثر؛ لأنه يحمل على المبادلة؛ لأنه صلح عن عين ولا يمكن حمله على الإبراء، إذ لا دين عليهم ولا يتصور الإبراء عن العين".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

25/ذی قعدہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب