77296 | زکوة کابیان | زکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان |
سوال
کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں اپنی ذاتی زکوۃ کی رقم سے کھانابناکردینی مدرسہ کے طلبہ واساتذہ کوکھاناکھلاتاہوں،کیاجائزہے؟اسی طرح کبھی کوئی شخص مجھے اپنی زکوۃ کی رقم اس نیت اورشرط کےساتھ حوالہ کرتاہے کہ میں اس کی طرف سے اس رقم کاکھاناتیارکرکے مدرسہ کے طلبہ واساتذہ کوکھلادوں توکیااس طرح زکوۃ اداہوجاتی ہے؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مطلوب ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صدقات واجبہ جیسے زکوة ،فطرانہ وغیرہ میں مستحق (جس کی ملکیت میں نصاب کی بقدرمال نہ ہو)کومالک بناناضروری ہے،صدقات نافلہ میں مالک بنانااورمستحق کودیناضروری نہیں،صدقہ نافلہ امیرکوبھی دیاجاسکتاہے اورعمارت وغیرہ پربھی لگایاجاسکتاہے،عام طورپرکھاناکھلانے میں مالک بنانے کی صورت نہیں پائی جاتی ہے،کھاناسامنے رکھدیاجاتاہےتاکہ ہرشخص اپنی ضرورت کے مطابق کھالے،ساتھ لیجانے کی اجازت نہیں ہوتی،اس لئے اس طرح كهاناكهلانے سےزکوة وغیرہ ادانہیں ہوتی ہے،البتہ اگرپیکٹ وغیرہ بناکرمستحق طلبہ اوراساتذہ کودیدیئے جائیں اوران کواپنے ساتھ لیجانے کی بھی اجازت ہوتوایسی صورت میں زکوة وغیرہ اداہوجائے گی۔
حوالہ جات
۔۔۔
محمد اویس بن عبدالکریم
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
02/12/1443
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |