021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نامرد شوہر کی بیوی کی عدت کا حکم
77273طلاق کے احکامعدت کا بیان

سوال

بارہ سال قبل میری شادی ایک شخص کے ساتھ ہوئی، نامرد ہونے کی وجہ سے اکثر جھگڑے رہتے تھے، بارہ سال میں اولاد بھی نہیں ہوئی، میں اکثر طلاق یا خلع کا مطالبہ کرتی تھی، میرا دیندار گھرانے سے تعلق ہے۔ اب اس نے مجھے گواہوں کی موجودگی میں تحریری طلاق دے دی ہے، پوچھنا یہ ہے کہ شوہر نامرد ہونے کی صورت میں کتنی عدت گزارنا ہوتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 اگر شوہر نامرد ہو، یعنی ہمبستری پر قادر نہ ہو تو بھی  خلوتِ صحیحہ کے پائے جانے کی صورت میں شرعاً عورت پر عدت لازم ہوتی ہے اور بارہ سال تک اکٹھے رہنے کے دوران کے دوران عام طور پر خلوتِ صحیحہ کا تحقق ہو جاتا ہے،  لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر عورت کو ماہواری آتی ہو تو تین ماہواری عدت ہو گی اور اگر کسی وجہ سے ماہواری نہ آتی ہو تو تین ماہ عدت گزارنا ضروری ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار و حاشية ابن عابدين :ج:3، ص:496-498، ط:دار الفكر-بيروت:
’’(و لو وجدته عنينًا) هو من لا يصل إلى النساء لمرض أو كبر، أو سحر ... (فإن وطئ) مرة فبها (و إلا بانت بالتفريق) من القاضي إن أبى طلاقها....... (قوله: و إلا بانت بالتفريق) لأنها فرقة قبل الدخول حقيقة، فكانت بائنة و لها كمال المهر و عليها العدة لوجود الخلوة الصحيحة، بحر.
تبيين الحقائق (3/ 23) المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة:
 
 (قوله وعليها العدة لوجود الخلوة الصحيحة) أي لأن خلوة العنين صحيحة إذ لا وقوف على حقيقة العنة لجواز أن يمتنع من الوطء اختيارا تعنتا فيدور الحكم على سلامة الآلة. الخ. فتح

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراتشی

27/ذوالقعدة 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب