021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کی زندگی میں شروع کیے گئے مشترک کاروبار میں میراث کا حکم
77333میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ایک بندہ حاجی محمد صدیق نوکری سے ریٹائر ہوا تو اسے 8 لاکھ روپے ملے۔اس نے یہ پیسے اپنے بیٹے کو دے دیے تا کہ وہ اس سے کوئی کاروبار شروع کر لے۔ سب بیٹوں نے اپنے والد کے ساتھ مل کر دوکان بنا لی اور کاروبار شروع کر دیا۔ اب والد صاحب کا انتقال ہو چکا ہے اور کاروبار کروڑوں کی مالیت کا ہے اور ایک بیٹے کے نام پر ہے۔ یہ مال سب بہن بھائیوں کا ہو گا یا صرف بیٹوں کا جنہوں نے کاروبار شروع کیا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس صورت میں شریعت کی نظر میں حاجی محمد صدیق کاروبار کے مالک تھے، ان کی وفات کے بعد اس کاروبار پر بھی دیگر اموال کی طرح میراث کے احکام لاگو ہوں گے۔ ان کے تمام شرعی ورثہ کو شرعی اصولوں کے مطابق حصہ ملے گا۔

ورثہ نے میت کی وفات کے بعد میراث تقسیم نہ کر کے غلط کام کیا ہے۔ ابھی تمام ورثہ پر لازم ہے کہ وہ شرعی اصولوں کے مطابق میراث تقسیم کر لیں۔

چونکہ میت کی وفات کے بعد کاروبار کو تقسیم نہیں کیا گیا اس لیے تمام ورثہ اپنے شرعی حصہ کے تناسب سے اس کاروبار میں شریک سمجھے جائیں گے۔ اس لیے میت کی وفات سے اب تک کاروبار کی مالیت میں جو اضافہ ہوا ہے،اس میں سے بھی  سب کو ان کے شرعی حصے کے حساب سے حصہ ملے گا۔ اس دوران جو نفع باقاعدہ کاروبار میں شریک بھائیوں نے آپس میں تقسیم کیا ہے، اس میں بھی تمام ورثہ کا حصہ سمجھا جائے گا۔ البتہ جو بھائی کاروبار کو باقاعدہ سنبھالتے رہےہیں، انہیں عرف کے مطابق اپنی خدمات کی اجرت مثل لینے کا حق حاصل ہو گا یعنی ان جیسی صلاحیت والا آدمی کسی کے پاس یہی کام کرتا تو اسے جتنی اجرت ملتی اتنی اجرت یہ بھی لے سکتے ہیں۔

اسی طرح اگر کوئی وارث حاجی محمد صدیق کی وفات کے وقت زندہ تھا اور اب وفات پا چکا ہے تو اس کے شرعی ورثہ کو اس کی میراث ملے گی۔

حوالہ جات
  • الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 325)
في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب
  • درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 26)
 تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما، انظر المادة (1308) وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم بموجب المادة (88) .
الحاصلات: هي اللبن والنتاج والصوف وأثمار الكروم والجنائن وثمن المبيع وبدل الإيجار والربح وما أشبه ذلك.
  • درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 51)
 إذا بذر بعض الورثة الحبوب المشتركة بين جميع الورثة في الأراضي المورثة أو في أراضي الغير بإذن الورثة الآخرين أو إذن وصيهم أو بإذن القاضي إذا كان الورثة صغارا فتكون الحاصلات مشتركة بينهم جميعا، والحال الذي يوجب أن تكون الحاصلات مشتركة بينهم هو كون البذر مشتركا بينهم وكون الوارث الزارع قد زرع بإذن أصحاب الحصص الآخرين سواء زرع في الأراضي الموروثة أو في أراضي الغير أي في الأرض المأجورة أو المستعارة (الفتاوى الجديدة) أو في ملكه الخاص، وفي هذه الصورة يكون الزارع أصيلا عن نفسه ووكيلا عن شركائه في الزراعة.
  • الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 42)
وفي الأشباه: استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم، وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعمل له.وفي الدرر: دفع غلامه أو ابنه لحائك مدة كذا ليعلمه النسج وشرط عليه كل شهر كذا جاز، ولو لم يشترط فبعد التعليم طلب كل من المعلم والمولى أجرا من الآخر اعتبر عرف البلدة في ذلك العمل.
  • الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 42)
(قوله فالعبرة لعادتهم) أي لعادة أهل السوق، فإن كانوا يعملون بأجر يجب أجر المثل وإلا فلا. (قوله اعتبر عرف البلدة إلخ) فإن كان العرف يشهد للأستاذ يحكم بأجر مثل تعليم ذلك العمل، وإن شهد للمولى فأجر مثل الغلام على الأستاذ د رر.

نفیس الحق ثاقب

دارالافتاءجامعۃالرشید کراچی

5 ذوالحجہ 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نفیس الحق ثاقب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب