021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
متقی کے پیچھے نماز پڑھناگویا نبی کے پیچھے پڑھنے والی روایت کی تحقیق
77475حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ایک حدیث مشہورہےکہ جس نے کسی متقی عالم کے پیچھے نماز پڑھی گویا اس نے نبی کے پیچھے نماز پڑھی،بعض فقہاء نے بھی اس کو روایت کیاہے،اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے اوریہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کو منسوب کرنا کیساہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ حدیث انہی الفاظ ساتھ کتبِ حدیث میں ہمیں نہیں ملی ،اسی وجہ سے علامہ زيلعی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بابت  "نصب الراية"(2/26)میں فرمایا: "غريب"یعنی یہ حدیث غریب ہے اور وہ یہ اصطلاح ایسے احادیث کے لیے استعمال فرماتے ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی اورابن حجر رحمہ اللہ" الدراية " (1/168)میں  ارشادفرماتے ہیں: حَدِيث: «من صَلَّى خلف عَالم تَقِيّ فَكَأَنَّمَا صَلَّى خلف نَبِي» لم أَجِدهُ.کہ یہ حدیث مجھے نہیں ملی اورعلامہ عينی رحمہ اللہ تعالی "البناية شرح الهداية" (2/331)میں ارشادفرماتے ہیں: قوله - ﷺ : «مَن صَلَّى خَلفَ عالمٍ تقيٍّ فكأنما صَلَّى خلفَ نبيّ» هذا الحديث غريبٌ ليس في كتب الحديث .یہ حدیث غریب ہے اورکتب حدیث میں نہیں ہے۔اورعلامہ سخاوی"المقاصد الحسنة " (ص:486)میں ارشاد فرماتے ہیں :  "وما وقع... بلفظ  مَن صَلّى خَلفَ عالم تقي، فكأنَّما صَلَّى خَلفّ نبيّ  فلم أقف عليه بهذا اللفظ" ان الفاظ کے ساتھ مجھے اس حدیث پر واقفیت نہیں ہوئی۔

   بعض علماءِ کرام اس حدیث کے کچھ شواہد کا تذکرہ بھی فرماتے ہیں جیسےکہ" قدّموا خيارَكم تزكو صَلاتُكُمْ " ،  " إِنْ سَرَّكُمْ أَنْ تُقْبَلَ صَلاتُكُمْ فَلْيَؤُمَّكُمْ خِيَارُكُمْ "،" اجعلوا أئمتَكم خيارَكم ، فإنهم وَفدُكم فيما بينكم وبين ربِّكم "اوراس طرح کی دیگرورایات، مگریہ سب ضعف سے خالی نہیں، نیز یہ سب شواہد مذکورہ حدیث کے ہم معنی بھی نہیں بلکہ دونوں قسموں میں فرق ہے،لہذ امذکورہ روایت کو بطورحدیث بیان کرنااوراس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں ہے،اس سے گریز کرنالازم ہے۔

       یہ درست ہے کہ بعض فقہاء کرام نے اس کو بطورحدیث اپنی کتب میں جگہ دی ہے مگرچونکہ وہ اہلِ فن نہیں ہیں لہذا

 احادیث کی دنیا میں حدیث کی صحت و عدم صحت کے متعلق محدثین کی بات مانی جائیگی نہ کہ فقھاء  کرام کی۔

  علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "عمدۃالرعایۃ فی حل شرح الوقایۃ" کے مقدمہ میں ملاعلی قاری رحمہ اللہ کاایک کلام کو ذکر کرتے ہوئے تعلیقاً فرمایا کہ:

 "ملا علی قاری کے مذکورہ کلام سے ایک بہت ہی مفید بات معلوم ہوئی کہ کتب فقہ، مسائل فقہ کے باب میں بلا شبہ معتبر اور قابل اعتماد ہیں،اسی طرح ان کے مصنفین بھی اپنے میدان میں تبحر و کمال کے درجہ پر فائز ہیں . مگر ان تمام محاسن کے باوجود احادیث کے سلسلہ میں ان پر کلی اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور محض ان کتابوں میں احادیث کا ذکر آنے سے کوئی قطعی فیصلہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔چنانچہ کتنی احادیث موضوعہ فقہ کی کتب معتبرہ میں مذکور ہیں، جیسے .. لسان اھل الجنۃ العربیۃ والفاسیۃ الدریۃ .. من صلی خلف عالم تقی فکأنما صلی خلف نبی ،علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل  وغیرہ . ہاں اس کتاب کا مؤلف محدث ہو تو اس کی ذکر کردہ حدیث پرپھر اعتماد کیا جاسکتا ہے، اسی طرح کوئی بھی ثقہ مصنف منقول حدیث کی سند، حدیث کی کسی کتاب میں بیان کردے تو قابل قبول ہوسکتی ہے اور صاف بات یہ ہے کہ لکل مقام مقال ولکل فن رجال ،اللہ تعالٰی نے ہر بات کا موقع ومحل الگ بنایا ہے اور ہر فن کے لئے علیحدہ رجال پیدا کئے ہیں اور اپنی مخلوقات میں سے ہر ایک کے لئے کسی نہ کسی نوع کی فضیلت کو مخصوص کردیا جو دوسروں میں مفقود ہوتی ہے چنانچہ بعض محدثین کے دامن میں روایت کا وافر حصہ القاء فرمایا لیکن فقہ اور اصول فقہ سے ان کو تہی دامن رکھا جب کہ بعض فقہاء کرام میں مسائلِ فقہیہ کے ضبط کرنے کی تو خوب صلاحیت رکھی لیکن احادیث نبویہ کے ملکہ مبارکہ سے عاری رکھا اس لئے اب ہم پر یہ بات ضروری ہے کہ ہم ہر ایک کو اس کے مقام ومرتبہ میں رکھیں اور میں نے اس موضوع پر اپنے رسالہ "ردع الاخوان مما احدثوہ فی آخر جمعۃ رمضان "میں سیرحاصل بحث کی ہے " 

    شیخ ابو غدہ رحمہ اللہ یہاں حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نے اس موضوع کی تحقیق میں رسالہ مذکورہ کے بیس سے متجاوز صفحات پر بڑا ہی شاندار کلام کیا ہے۔

اس مقام کے خلاصۂ کلام کے طور پر اس کا کچھ حصہ  ذیل میں ذکر کیا جارہا ہے۔

  علامہ لکھنوی ارشاد فرماتے ہیں کہ زاداللبیب، انیس الواعظین، ادارۃالعابدین، اور مفاتیح الجنان میں مرقوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"من فاتتہ صلوات ولایدری عددھا فلیصل یوم الجمعۃ اربع رکعات نفلا  بسلام

واحد ویقرأ فی کل رکعۃ بعد الفاتحۃ آیۃالکرسی سبع مرات، وانا اعطینک الکوثر خمس عشرۃ مرۃ قال علی بن ابی طالب سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول وان فاتتہ صلوات سبع مائۃ سنۃ کانت ھذہ الصلوۃ کفارۃ لھا قالت الصحابۃانما غیر الانسان ای من ھذہ الامۃ  قال لما فاتہ وما فات من الصلوات من ابیہ وامہ ولفوائت اولادہ"

یعنی اگر کسی کی اتنی نمازیں فوت ہوجائیں کہ ان کی تعداد کا علم بھی نہ ہو تو ایسے شخص کو جمعہ کے دن چار رکعت نفل ایک ساتھ ادا کرنا چاہئے اور ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سات مرتبہ آیۃالکرسی اور پندرہ مرتبہ سورۃ الکوثر پڑھنا چاہئے ،حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر کسی کی سات سو سال کی بھی نمازیں فوت ہوگئیں ہو تو یہ نماز ان تمام چھوٹی ہوئی نمازوں کے لئے کفارہ ہوجائیگی . صحابہ نے عرض کیا کہ اس امت کی عمریں صرف ۷۰ یا ۸۰ سال کی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ نماز خود اس کی، اس کی والد کی، والدہ کی، اور اس کی اولاد وغیرہ کی فوت شدہ نمازوں کے لئے بھی کفارہ ہے۔

     نیز من صلی فی آخر جمعۃ من رمضان اربع رکعات قبل الظھر کانت کفارۃ لفوائت جمیع عمرہ،یعنی جس شخص نے رمضان کے آخری جمعہ میں ظہر سے قبل چار رکعت پڑھی تو یہ نماز اس کی زندگی کے فوت شدہ نمازوں کے لئے کفارہ ہوگی،یہ اوران جیسی غیر ثابت شدہ احادیث کتب مذکورہ میں پائی جاتی ہے جو صریح البطلان ہیں.

      پھر علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نے ان احادیث کے ابطال اور ان کے ناقلین پر اعتماد کرنے والوں کی تردید کے ارادے سے فرمایا کہ : ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الموضوعات میں ایک قاعدۂ کلیہ ذکر فرمایا کہ احادیث نبویہ، مسائل فقہیہ، اور تفاسیر قرآنیہ کو کتب متداولہ ہی سے اخذ کرنا درست ہے، اس لئے کہ دیگر کتب غیرمحفوظہ پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ وہ کتابیں زنادقہ کی وضع کی شکار ہوگئیں ہوں یا ملحدیں کے الحاد سے ملحق ہو گئیں ہوں ،پھر علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نے ان احادیث کے بطلان کی دلیل دیتے ہوے کئی ایک وجہیں ذکر کی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان مصنفین نے ان روایات کو بےسند ذکر کیا ہے اور ان روایات کو کسی مخرج تک متصل السند بیان نہیں فرمایا اور بےسند حدیث کو قبول کرنا اہل عقل و دانش کی شان کے خلاف ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان ناقلین کے مابین ایسے ہر خطےاور بیابان ہیں جن میں بسا اوقات سواروں کی سواریاں ہلاک ہوجایا کرتی ہیں اور منزل تک رسائی نہیں ہوپاتی صرف قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کذا و کذا کہنا اس وقت تک حلال نہیں جب تک کہ اس کے پاس اس روایت کی اقل درجہ میں ہی سہی کوئی وجہ روایت موجود نہ ہو۔

     لیکن اگر کسی کویہ اشکال ہو کہ یہ روایتیں تو مشہور ہیں لہٰذا ان کی سندوں کی تحقیق کی ضرورت نہیں؟تو اس اشکال کا دفعیہ یہ ہے کہ مشہور سے مراد اگر معنی اصطلاح عندالاصولیین ہے تب بھی ان  روایات کی سند بیانی  ان کی تحقیق و تفتیش پر موقوف ہوگی .اور اگر مشہور سے مراد مطلق مشہور ہے اگرچہ وہ خواص و وعوام کے زبان زد ہیں تب بھی ناقابل انتفاع ہیں اس لئے کہ اس جیسی شہرت محدثین کے ہاںساقط الاعتبار ہےکیونکہ کتنی ایسی احادیث ہیں جو عوام کی زبان پر مشہور ہیں یا خواص کی کتابوں میں مسطور ہیں حالانکہ شریعت میں ان کی اصل مفقود ہے، اور وہ موضوع یا حد درجہ ضعیف ہیں، مثلًا . لولاک لما خلقت الافلاک، علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل، یوم صومکم یوم نحرکم، لسان اھل الجنۃ العربیۃ والفارسیۃ الدریۃ، وغیرہجیسا کہ یہ ابن الجوزی کی کتاب الموضوعات،امام سیوطی کی  اللآلی المصنوعۃ اور الدررالمنتثرۃ علامہ سخاوی کی المقاصد الحسنۃ ،ملاعلی قاری کی المضوعات وغیرہ مصنفات کو زیر مطالعہ رکھنے والے شخص پر مخفی نہیں۔

    علامہ سخاوی رحمہ اللہ  نے فتح المغیث میں لکھا ہے کہ مشہور کی دو صورتیں ہیں ایک مشہور عندالمحدثین یعنی یہ کہ دو سے زائد راویوں سے مروی ہو.دوسری مشہور عندالناس یعنی صرف عوام الناس کے مابین وہ مشہور ہو اگرچہ کہ اس کی صرف ایک سند ہو یا ایک سے زائد ہو یا یہ کہ اس کی کوئی بھی سند نہ ہو وہ بھی اس صورت میں شامل ہے. جیسے .. علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل اور ولدت فی زمن الملک العادل کسری .اس طرح کی بہت سی احادیثِ مشہورہ لوگوں کے ما بین مشہور ہیں لیکن دنیائے حدیث میں مشہور عندالناس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا، بلکہ مشہور عند المحدثین کے قول کو قابل تسلیم کیا جاتا ہے .

     اگر کوئی یہ سمجھے کہ ان روایات کا جلیل القدر اور شہیرالذکر حضرات ناقلین سے منقول ہونا ہی سند کی حیثیت رکھتا ہے؟ تو ایسے سمجھدار شخص کو یہ بات جاننا ضروری ہے کہ بے سند حدیث بالکل ہی قابل قبول نہیں اگرچہ اس کا قائل معتمد ہی کیوں نہ ہو اور خصوصا جبکہ ناقل نقاد حدیث میں سے نہ ہو. نیز کسی شخصیت کا جلیل القدر ہونا اس کے منقولات کے قبول کرنے کو مستلزم نہیں ہےذرا ایک نظر امام غزالی کی تصنیف  احیاء علوم الدین پر ڈالئے جس میں بے سند اور غیر معتمد احادیث بکثرت ہیں، جیسا کہ یہ بات علامہ عراقی  کی تخریج احادیث احیاء علوم الدین  کے مطالعہ سے واشگاف ہوجاتی ہے، نیز جلیل القدر حنفی فقیہ صاحب ھدایہ علامہ مرغینانی ر حمہ اللہ کو لے لیجئے ان کی عظیم المرتبت کتاب ہدایہ میں بھی اخبار غریبہ وضعیفہ اور غیر معتمد روایات ہیں جو علامہ زیلعی اور ابن حجر کی تخریج احادیث الہدایۃ کے پڑھنے سے واشگاف ہوجاتی ہے۔ان ساری باتوں کے جاننے کے باوجود بھی اگر کوئی شخص کہے کہ یہ روایات تو ثقات سے منقول ہیں اور ثقات سے خرافات و واہیات کا واقع ہونا امر مستبعد ہے ؟تو میں یہ کہتا ہوں کہ دیندار و ثقہ سے ان کا وقوع امر مستبعد نہیں ہے لیکن ہاں .میں یہ بھی نہیں کہتا ہوں کہ انہوں نے علم بالکذب کے باوجود ان کو نقل کیا بلکہ انہیں دوسروں کے کہنے سے دھوکا ہوگیا کیوں کہ وہ نہ تو خود محدث تھے اور نہ ہی کسی محدث ناقد کی طرف اس کی نسبت کی والعبرۃ فی ھذا الباب لھم لا لغیرھمیعنی دنیائے حدیث میں محدث کے قول کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ کسی اور کا۔جب میں نے ملا علی قاری رحمہ اللہ کی وہ عبارت جو من قضی من الفرائض الخ کے موضوع ہونے پر دال ہے بعض لوگوں کو لکھ کر ارسال کیا تو انہوں نے کہا کہ صاحبِ نہایہ کے مقابل ملا علی قاری ناقابل اعتبار ہیں اور قابل اعتبار صاحب نہایہ کا نقل کرنا ہے نہ کہ ملا علی ؒ کا فیصلہ،لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بات ایسے جاہل نے کہی ہوگی جو کہ مرتبۂ محققین اور فقہاء کے مابین فرق سے بے بہرہ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی نے ہر میدان کے کچھ جانباز پیدا کئےہیں اور ہر بات کا ایک مقام و موقع مقرر کردیا ہے اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہر ایک کو اس کا مقام و مرتبہ دیں .چنانچہ جب اجلۂ فقہاء بھی تنقید احادیث سے واقف نہ ہوں تو ہم تحقیق محدثین کے بغیر بے سند و غیر مستند روایات کو تسلیم نہیں کرینگے، معتبرین کے کلام کی طرح ان کا کلام قابل قبول نہیں سمجھیں گے. اسی طرح ہر صاحب فن کو اس فن میں حیثیت دیتے جائیں ،ان تمام تفصیلات کے بعد اب صاحب نہایہ کو ذرا مرکز توجہ بنائیے کہ اگرچہ وہ اجلۂ فقہاء کی صف میں ہیں لیکن زمرۂ محدثین کے رتبہ تک ان کی رسائی نہیں، اس لئے ان کی بےسند روایات کو اس وقت تک قابل تسلیم نہیں سمجھیں گے جب تک کہ ان کے لائق اعتبار ہونے پر محدثین کی ایک جماعت صراحت نہ کردے کیونکہ یہ بات مسلم ہے العبرۃفی ھذالباب لھم لا لغیرھم.(انتھی حاصل کلام اللکھنوی )

    شیخ عبدالفتاح ابوغدہ فرماتے ہیں کہ یہ وہ قیمتی تحقیقات ہیں کہ اگر علم و تحقیق کا کوئی شیدائی اس کے لئے مہینوں کا سفر کرے تو بھی بسا غنیمت ہے کیونکہ یہ ساری باتیں حقائق کا لب لباب اور صاف و بے داغ سراپا خیر خواہی وسچائی پر مبنی ہیں اسی لئے میں نے یہاں تطویل کلام کو مناسب سمجھا ..اللہ پاک امام لکھنوی  پر باران رحمت نازل فرماکر انہیں دین کی پاسبانی کا بدلہ عطا فرمائیں آمین 

(دیکھئے الاجوبۃ الفاضلۃمع الحاشیۃ : ص ۳۰ تا ۳۴ وعمدۃالاقاویل فی تحقیق الاباطیل مؤلفہ مولانا رضوان الدین صاحب معروفی)

حوالہ جات
.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

6/1/1443ھ
 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب