77474 | حدیث سے متعلق مسائل کا بیان | متفرّق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
آپ صلی للہ علیہ وسلم کی طرف ایسے واقعات منسوب کرنا جو ثابت نہ ہوں اس کا کیاحکم ہوگا؟ یہ واقعات جو بظاہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں ہوتی ہیں جب ثابت ہی نہیں تو یہ کس طرح ہوئے؟ ویسے ان واقعات میں آپ صلی للہ علیہ وسلم کی کوئی برائی تونہیں تو اگر اس طرح روایات یا واقعات کو خطاب ،بیان وغیرہ میں بیان کردیاجائے تواس کا کیاحکم ہوگا ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ رسولِ اَکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ذات سے منسوب کسی بھی واقعہ کے درست ہونے کے لیے مستند کتبِ احادیث میں منقول ہونا ضروری ہے، پس جو واقعہ مستند کتبِ احادیث میں منقول نہ ہو وہ شرعاً بے اصل ہے اور اسے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا ،اوربے اصل ہونے کی تصریح کے بغیرخطبوں اوربیانات میں اس کوذکر کرنا شرعاً جائز نہیں۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:" من کذب عليّ متعمداً فلیتبوا مقعدہ من النار "یعنی جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔(صحیح بخاری، کتاب العلم، باب اثم من کذب الخ، جلد ۱، صفحہ ۲۷٤ مطبوعہ دارالتاصیل بیروت)
آپ ﷺ کو خلقِ عظیم کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہونے کی سند خود باری تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے، اور آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں قدم قدم پر اعلیٰ اخلاقی قدروں کی بے نظیر مثالیں موجود ہیں، مستند ذخیرہ احادیث وکتبِ سیرت ان حوالوں سے بھرا ہوا ہے، لہٰذا آپ ﷺ کے کریمانہ اخلاق کے واقعات صحیح اور ثابت شدہ کتابوں سے بیان کیے جائیں۔اوربے اصل واقعات گو ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ہو بیان نہ کئے جائیں۔
حوالہ جات
.
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
6/1/1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |