021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کرایہ پر لی گئی گاڑی کے حادثہ میں ضامن کون ہو گا؟
77560اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

یاسر: گاڑی کا مالک۔

شایان: مسافر جس سے معاملہ طے ہوا یعنی کرایہ دار۔

عمیر: مسافر جس نے گاڑی چلاتے ہوئے ایکسیڈنٹ کیا۔

تفصیل:یاسر نے اپنی گاڑی کرائے پر آٹھ دن کے لیے شایان کو دی ڈرائیور (یاسر) کے ساتھ،طے یہ پایا تھا کہ گاڑی 24 گھنٹے میں 10 سے 12 گھنٹے آپ کو سروس مہیا کرے گی۔

مسئلہ: 18 جولائی اسلام آباد سے 12 بجے دوپہر کے سفر کا آغاز ہوا ،جس میں راولپنڈی اور اسلام آباد میں مسافر گھومتے رہے اور پھر پشاور گئے، پشاور میں رات کا کھانا کھانے کے بعد ڈرائیوریعنی گاڑی کا مالک (یاسر) نے عرض کیا کہ رات کو یہیں قیام کرلیں، کیوں کہ صبح 12 بجے سے جاگے ہوئے ہیں اور اس وقت رات کا 1 بج رہا ہے اور بہتر یہ ہے کہ صبح سویرے روانہ ہو جائیں، لیکن شایان نے کہا رات کو یہاں قیام نہیں کر سکتے، سفر کا آغاز کرتے ہیں اور آگے چل کر فیصل آباد یا کہیں راستے میں قیام کرلیں گے، پھر 19 جولائی رات کے ایک بج کے 30 منٹ پر پشاور سے کراچی کے لیے روانہ ہوگئے اور پھر تقریبا 6 گھنٹے کے سفر کے بعد فیصل آباد میں قیام نہیں کیا، جس پر شایان نے کہا کہ ملتان تک سفر کرلیں اور پھر ملتان تک سفر کرنے کے بعد شایان نے اصرار کیا کہ کراچی چلتے ہیں، قیام کو چھوڑیں سب فیملی بچے گاڑی میں سو رہے ہیں بس کراچی چلتے ہیں آپ گاڑی سکھر تک چلانے کے لئے عمیر کو دے دیں، عمیر پشاور سے سو رہے تھے تقریبا نو گھنٹے آرام کرچکے ہیں "یاسر بھائی آپ پریشان نہ ہوں گاڑی ڈرائیو کرنے کے لیے عمیر کو دے دو ٹینشن نہ لو"۔

شایان کے اس اصرار پر یاسر نے ان کا خیال کیا اور مزید گاڑی ڈرائیو کی اور اوچ شریف پر ناشتے کے لیے تقریباً 19 جولائی صبح دس بجے اوچ شریف پر ناشتہ کیا۔

اس کے بعد اوچ شریف سے شایان کے اصرار پر اور عمیر نے کہا کہ گاڑی میں چلاؤں گا، اب آپ آرام کریں عمیر نے کہا میں نے تقریباً اپنی نیند پوری کرلی ہے، پھر عمیر نے گاڑی چلائی (تقریباً 2 گھنٹے) اور 19 جولائی دوپہر کو 12 بجے کشمور کے قریب ٹرک میں پیچھے سے گاڑی ماردی۔

موٹروے پولیس کے مطابق اور جو شاہدین تھے ان کے مطابق غلطی ٹوٹل عمیر کی ہے، (ٹرک میں پیچھے سے مار دی اب نیند آئی، کیا ہوا اللہ بہتر جانتا ہے)۔

اللہ کے فضل و کرم سے الحمدللہ کوئی جانی نقصان نہ ہوا ،لیکن گاڑی کا مالی نقصان 30 لاکھ مارکیٹ ویلیو کے حساب سے ہوا ہے، اس کا ذمہ دار شریعت کے  مطابق کون ہے ؟برائے مہربانی علماء کرام سے گزارش ہے کہ وہ میرے اس مسئلے کا حل بتائیں جو شریعت کے مطابق ہو تاکہ دونوں طرف کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو۔

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ گاڑی ڈرائیور سمیت کرایہ پر لی گئی تھی، البتہ پیٹرول انہوں نے ڈلوانا تھا،  اگر میں ان کو دس گھنٹے کے بعد ٹھہرنے پر مجبور کرتا اور گاڑی عمیر کو نہ دیتا تو میں ایسا کر سکتا تھا، وہ مجھے مجبور نہیں کر سکتے تھے، میں نے مروت کا لحاظ رکھتے ہوئے سفر جاری رکھا۔

یہ بھی بتایا میرا شایان اور عمیر سے صرف آٹھ دن کا تعلق تھا، میں نے عمیر کو گاڑی شایان کے اصرار پر دی تھی، وہ کہہ رہے تھے آپ کچھ دیر آرام کر لیں، آپ پریشان نہ ہوں، میری بات مانیں آپ گاڑی عمیر کو دے دیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شروع میں چلتے وقت یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ہر دس بارہ گھنٹے کے بعد ٹھہر کر آرام کرکے دوبارہ سفر شروع  کیا جائے گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اگرچہ یاسر نے شایان (ڈرائیورسمیت گاڑی کرایہ پر لینے کا معاہدہ کرنے والا، جس میں اصل مقصود اس گاڑی میں متعین وقت اور متعینہ مدت کے دوران سفر کرنا تھا) کے اصرار پر گاڑی عمیر کو دی تھی، لیکن سوال میں ذکر کی گئی وضاحت کے مطابق اصولی طور پر یاسر کو شایان گاڑی دینے پر مجبور نہیں کر سکتا تھا، بلکہ یاسر گاڑی دینے میں بااختیار تھا، اگر وہ گاڑی نہ دیتا تو وہ ایسا کر سکتا تھا، کیونکہ معاہدے کے مطابق سفر میں گاڑی چلانے کی ذمہ داری یاسر کی تھی، جو کہ خود گاڑی کا مالک تھا، البتہ یاسر نے مروت کا لحاظ کرتے ہوئے  سفر جاری رکھا اور پھر شایان نے یاسر کا احساس کرتے ہوئے اصرار کیا کہ آپ آرام کر لیں اور گاڑی چلانے کے لیے عمیر کو دے دیں، اس لیے شایان اس نقصان کا ذمہ دار نہیں ہے، کیونکہ کسی کام کا حکم دینے سے حکم دینے والا شرعاً ضامن نہیں ہوتا، بشرطیکہ کام کرنے والا وہ فعل کرنے میں خود مختار ہو، جیسا کہ مذکورہ صورت میں یاسر عمیر کو گاڑی دینے میں خود مختار تھا۔

جہاں تک عمیر کا تعلق ہے تو شرعاً اس معاملے کی حیثیت عاریت (عارضی طور پر استعمال کے لیے کوئی چیز کسی کو دینا) کی ہے اور عاریت پر لینے والے شخص کے پاس چیز شرعاً امانت شمار ہوتی ہے اور بغیر کوتاہی اور تعدی کے وہ ضامن نہیں ہوتا، البتہ کوتاہی اور غفلت ظاہر ہونے کی صورت میں وہ نقصان کا ذمہ دار ہوتا ہے، جبکہ سوال میں تصریح کی گئی ہے کہ موٹروے پولیس اور  عینی شاہدین  کے بیان کے مطابق غلطی ٹوٹل عمیر کی ہے، جس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ گاڑی پیچھے سے ٹرک کے اندر ماری گئی ہے، اس لیے شرعی اصول کے مطابق  شرعاًاس نقصان کا ذمہ دار عمیر بنتاہے، لہذا یاسر کے لیے جائز  ہے کہ وہ عمیرسے اپنی گاڑی کے  نقصان کی تلافی  کا مطالبہ کرے۔

حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (ص: 179) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
(مادة 922) لو أتلف أحد مال الآخر وأنقص قيمته تسببا يعني: لو كان سببا مفضيا لإتلاف مال أو نقصان قيمته يكون ضامنا. مثلا: إذا تمسك أحد بثياب آخر وحال مجاذبتهما سقط مما عليه شيء أو تعيب يكون المتمسك ضامنا وكذا لو سد أحد ماء أرض لآخر أو روضته فيبست مزروعاته ومغروساته وتلفت أو أفاض الماء زيادة وغرقت المزروعات وتلفت يكون ضامنا. وكذا لو فتح أحد باب إصطبل لآخر وفرت حيواناته أو ضاعت أو فتح باب قفص وفر الطير الذي كان فيه يكون ضامنا.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 179) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
(المادة 925) لو فعل أحد فعلا يكون سببا لتلف شيء فحل في ذلك الشيء فعل اختياري يعني أن شخصا آخر أتلف ذلك الشيء مباشرة يكون ذلك المباشر الذي هو صاحب الفعل الاختياري ضامنا.
درر الحکام شرح مجلة الأحکام لمحمد علي حيدر(508/2)دار الجيل، بيروت:
(المادة 887) (الإتلاف مباشرة هو إتلاف الشيء بالذات ويقال لمن فعله فاعل مباشر) أي الإتلاف الذي لا يتخلل بين فعل المباشر وبين تلف المال فعل آخر مثلا لو ضرب أحد فرس آخر فمات فيكون قد أتلفه مباشرة.
كذلك لو أحرق أحد دار آخر فيكون ذلك الشخص قد أتلف الدار المذكورة مباشرة.
وللإتلاف مباشرة مثال آخر مذكور في المادة الآتية:
(المادة 888) - (الإتلاف تسببا هو التسبب لتلف شيء يعني إحداث أمر في شيء يفضي إلى تلف شيء آخر على جري العادة ويقال لفاعله متسبب فعليه إن قطع حبل قنديل معلق هو سبب مفض لسقوطه على الأرض وانكساره فالذي قطع الحبل يكون أتلف الحبل مباشرة وكسر القنديل تسببا) .
مجمع الضمانات (1/ 405) دار الكتاب الإسلامي:
إذا اجتمع المباشر والمسبب أضيف الحكم إلى المباشر فلا ضمان على حافر البئر تعدياً بما تلف بإلقاء غيره.......... إذا اجتمع المباشر والمسبب أضيف الحكم إلى المباشر فلا ضمان على من دل سارقاًعلى مال إنسان فسرقه هذه في القاعدة الأخيرة من الأشباه.
المبسوط للسرخسي (4/ 342) دار المعرفة - بيروت:
المتسبب إذا كان متعدياً في تسببه كان ضامناً، وإذا لم يكن متعدياً لا يكون ضامناً.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 156) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
(المادة 814) إذا حصل من المستعير تعد أو تقصير بحق العارية ثم هلكت أو نقصت قيمتها فبأي سبب كان الهلاك أو النقص يلزم المستعير الضمان. مثلا إذا ذهب المستعير بالدابة المعارة إلى محل مسافته يومان في يوم واحد فتلفت تلك الدابة أو هزلت أو نقصت قيمتها لزم الضمان وكذا لو استعار دابة ليذهب بها إلى محل معين فتجاوز بها ذلك المحل ثم هلكت الدابة حتف أنفها لزم الضمان وكذلك إذا استعار إنسان حليا فوضعه على صبي وتركه بدون أن يكون عند الصبي من يحفظه فسرق الحلي فإن كان الصبي قادرا على حفظ الأشياء التي عليه لا يلزم الضمان وإن لم يكن قادرا لزم المستعير الضمان.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

18/محرم الحرام 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب