021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کا اقرار کرنے سے طلاق کے واقع ہونے کا حکم
77572طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

بیوی کا بیان

میرا نام فرحانہ یاسمین ہے، میرے شوہر کا نام زاہد شاہ ہے، میری شادی کو گیارہ سال ہوچکے ہیں، گزشتہ ڈھائی سال سے ہم دونوں کے درمیان کچھ ناچاقیاں چل رہی ہیں، پچھلے سال یکم مارچ 2021ء کو زاہد کسی کو اطلاع دیئے بغیر گھر سے  کہیں دور گمنام علاقے میں چلے گئے، ان کے چلے جانے کے بعد سے اب تک  میں اپنے والد کے گھر  پہ رہ رہی ہوں۔

اسی دوران زاہد مجھ سے فون  پر بات کرتے رہتے اور  کہتے:  میں کسی مسئلے میں الجھا ہوا ہوں ابھی گھر واپس نہیں آسکتا،آخر ایک دن میں ان کی تلاش میں 17  مہینے بعد اپنی بہن اور بہنوئی کے ساتھ ان کے آفس گئی، وہاں ان کے باس سے ملاقات ہوئی انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ دونوں کے درمیان علیحدگی ہوگئی ہے، میں نے جوابا کہا زاہد نے تو مجھے طلاق نہیں دی ہے، انہوں نے زاہد کو بلا کر پوچھا کہ کیا آپ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے  تو انہوں نے کہا: جی ہاں دے دی، پھر میں نے اپنی بہن اور بہنوئی کو آفس میں بلایا۔ میری بہن کے  پوچھنے پر انہوں نے کہا: جی ہاں دے دی، اس سے پہلے زاہد مجھے دھمکی دے چکے تھے کہ اگر تم آفس آئیں تو میرے اور تمہارے رشتے کا آخری دن ہوگا۔

آپ حضرات سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا مجھے طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

شوہر کا بیان

مؤدبانہ گزارش ہے کہ عرصہ ڈیڑھ سال سے  میری اپنی بیوی فرحانہ یاسمین سے اختلافات تھے، ان اختلافات کی وجہ سے میں الگ رہنے لگا، اس دوران میں نے کوئی دوسری شادی کی، نہ ہی شادی کرنے کا ارادہ تھا اور نہ اب کوئی ایسا ارادہ  ہے۔

پچھلے مہینے  میری بیوی میرے آفس تشریف لائیں، میری باس جوکہ خاتون ہیں مجھ سے ملی، تو ان خاتون نے ان کو بتایا کہ تمہارا شوہر تو تمہیں طلاق دے چکا ہے، میرے بلانے پر میں نے اپنی بیوی کو منع کیا کہ تم گھر جاؤ وہاں آکر بات کرتے ہیں تو وہ اپنی بہن اور بہنوئی کو بلاکر لائی کہ بتاؤ ہمارے درمیان علیحدگی ہوئی ہے کہ نہیں؟تو  میں نے ڈرانے کیلئے کہا کہ یہاں سے چلی جائیں  اور اپنے ساڑھو کو  بھی بتایا کہ میں اس طرح کروں گا، تو میں نے جھوٹ بول کر کہا کہ ہاں ہوئی ہے، میں صرف دومرتبہ اس طرح بولا، جبکہ نہ میں نے طلاق دی ہے نہ ارادہ ہے،  میں اپنی بیوی کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

طلاق کےجھوٹے اقرار سے قضاء طلاق واقع ہوجاتی ہے،اس لئےصورت مسؤلہ میں جبکہ شوہرنے بہنوئی کے پوچھنے پردومرتبہ طلاق کا اقرارکیا ہےتودوصریح طلاقیں قضاءواقع ہوچکی ہیں،البتہ یہ طلاقیں رجعی ہیں،شوہررجوع کرنا چاہے تو کرسکتاہے۔

یہ حکم اس وقت ہے کہ شوہر نے گزشتہ کہے گئے الفاظ" اگر تم آفس آئیں تو میرے اور تمہارے رشتے کا آخری دن ہوگا" سے طلاق کی تعلیق کی نیت نہ کی ہو،لیکن اگر شوہر نےان الفاظ کی ادائیگی کےوقت طلاق کی نیت کرلی تھی تو  بیوی کےدفتر آنے سےہی ایک بائن طلاق اوراس کےبعددومرتبہ صریح الفاظ میں اقرار سے دو مزید طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،گویا کل تین طلاقیں واقع ہوکر حرمت مغلظہ ثابت ہوچکی ہے،ایسی صورت میں تجدید نکاح کی گنجائش باقی نہ ہوگی ، الا یہ کہ یہ عورت آپ کی عدت گزارنے کے بعد کسی اور مرد سے شادی کرے اور وہ مرد اسے ہمبستری کے بعد طلاق دیدے،اس طرح دوسرے مرد کی طلاق کے بعد جب عدت گزرجائے گی تو تب یہ عورت آپ کیلئے حلال ہوگی۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 306)
(قوله الصريح يلحق الصريح) كما لو قال لها: أنت طالق ثم قال أنت طالق أو طلقها على مال وقع الثاني بحر، فلا فرق في الصريح الثاني بين كون الواقع به رجعيا أو بائنا (قوله ويلحق البائن) كما لو قال لها أنت بائن أو خلعها على مال ثم قال أنت طالق أو هذه طالق بحر عن البزازية، ثم قال: وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة. وقال أيضا: قيدنا الصريح اللاحق للبائن بكونه خاطبها به وأشار إليها للاحتراز عما إذا قال كل امرأة له طالق فإنه لا يقع على المختلعة إلخ وسيذكره الشارح في قوله ويستثنى ما في البزازية إلخ ويأتي الكلام فيه (قوله بشرط العدة) هذا الشرط لا بد منه في جميع صور اللحاق، فالأولى تأخيره عنها.
حاشية رد المحتار (3/ 260)
ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة اه.
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 40)
(سئل) في رجل سئل عن زوجته فقال أنا طلقتها وعديت عنها والحال أنه لم يطلقها بل أخبر كاذبا فما الحكم؟
(الجواب) : لا يصدق قضاء ويدين فيما بينه وبين الله تعالى وفي العلائي عن شرح نظم الوهبانية قال أنت طالق أو أنت حر وعنى به الإخبار كذبا وقع قضاء إلا إذا أشهد على ذلك. اهـ. وفي البحر الإقرار بالطلاق كاذبا يقع قضاء لا ديانة. اهـ. وبمثله أفتى الشيخ إسماعيل والعلامة الخير الرملي.
حاشية رد المحتار (3/ 273)
على أنه في القنية قال عازيا إلى البرهان صاحب المحيط: رجل دعته جماعة إلى شرب الخمر فقال إني حلفت بالطلاق أني لا أشرب وكان كاذبا فيه ثم شرب طلقت.
وقال صاحب التحفة: لا تطلق ديانة اه.
وما في التحفة لا يخالف ما قبله لان المراد طلقت قضاء فقط، لما مر من أنه لو أخبر بالطلاق كاذبا لا يقع ديانة، بخلاف الهازل، فهذا يدل على وقوعه وإن لم يضفه إلى المرأة صريحا، نعم يمكن حمله على ما إذا لم يقل إني أردت الحلف بطلاق غيرها فلا يخالف ما في البزازية.
ويؤيده ما في البحلو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اه.
ويفهم منه أنه لو يقل ذلك تطلق امرأته، لان العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لانه يحتمله كلامه.
الفتاوى الهندية (1/ 375)
ولو قال لها لا نكاح بيني وبينك أو قال لم يبق بيني وبينك نكاح يقع الطلاق إذا نوى.

محمدنصیر

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

19،محرم الحرام،1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب