021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک معلق طلاق سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں
77690طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

ایک شخص نے اپنے ماموں کے سامنے کہا کہ اگر میری بیوی آپ کے گھر گئی تو میرے اوپر طلاق ہے، سوال یہ ہے کہ اس طلاق سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟ کہ ماموں کے گھر بھی جا سکے اور طلاق بھی واقع نہ ہو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر سائل کے عرف میں" میرے اوپر طلاق ہے" کے الفاظ بیوی کو طلاق دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو اس صورت میں شخصِ مذکور کے اپنے ماموں كو یہ الفاظ "اگر میری بیوی آپ کے گھر گئی تو میرے اوپر طلاق ہے" کہنے سے ایک طلاقِ رجعی معلق ہو گئی، لہذا اس واقعہ کے بعد کسی بھی وقت اگر اس کی بیوی شوہر کے ماموں کے گھر چلی گئی تو اس پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہو جائے گی،جس کا حکم یہ ہے کہ شوہر کو عدت کے دوران رجوع (رجوع کا مطلب یہ ہے کہ شوہر کوئی ایسا فعل کر لے جو عام طور پر میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے جیسے شہوت سے چھونا یا بوسہ لینا یا وہ دو گواہوں کی موجودگی میں یہ کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں لوٹا لیا)کا  حق ہو گااور عدت ختم ہونے کے بعد باہمی رضامندی سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کا حق حاصل ہو گا اور آئندہ کے لیے شوہر کو صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہو گا۔

اس کے علاوہ اس معلق طلاق سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے اور نہ ہی اس معلق طلاق سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 272) دار الكتاب الإسلامي،بيروت:
سأل شيخ الإسلام أبو السعود العمادي مفتي الروم عما صورته ما قول شيخ الإسلام في رجل قال علي الطلاق أو يلزمني الطلاق هل هو صريح أو كناية فأجاب بقوله ليس بشيء منهما وسأل بعض المتأخرين أيضا عما صورته ما قولكم - رضي الله تعالى عنكم - في زيد قال علي الطلاق ثلاثا لا أشغل عمرا وبكرا عندي فإذا أشغلهما بعد ذلك عنده فهل يقع عليه الطلاق أو لا فأجاب بما صورته في البزازية طلاقك علي واجب أو لازم أو فرض أو ثابت قيل يقع واحدة رجعية نوى أو لا، والمختار عدم الوقوع ولو قال طلاق علي لا ولو قال عليك الطلاق يقع إذا نوى اهـ.
كلام الرملي لكن قال في المنح: في ديارنا صار العرف فاشيا في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره فيجب الإفتاء به من غير نية كما هو الحكم في الحرام يلزمني وعلي الحرام وممن صرح بوقوع الطلاق به للتعارف الشيخ قاسم في تصحيحه وإفتاء أبي السعود مبني على عدم استعماله في ديارهم في الطلاق أصلا كما لا يخفى۔
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 244) دار احياء التراث العربي – بيروت:
إن وجد الشرط في ملكه انحلت اليمين ووقع الطلاق " لأنه وجد الشرط والمحل قابل للجزاء فينزل الجزاء ولا تبقى اليمين لما قلنا.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

3/صفرالمظفر 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب