021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مرحومہ بیٹی کی اولاد اپنے نانا کی شرعا وارث نہیں
77762میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

مرحوم کی وراثت ان کے ورثاء میں کس طرح تقسیم ہو گی؟ ان کے ورثاء میں ایک بیوہ، پانچ بیٹے اور ایک مرحوم بیٹی کی اولاد شامل ہے۔اس بیٹی کا انتقال  اپنے والدکی زندگی میں  ہوا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرحوم نے بوقت ِانتقال اپنی ملکیت میں منقولہ وغیر منقولہ مال،جائیداد،سونا ،چاندی،نقدی اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا جو کچھ ساز وسامان چھوڑا ہے اور مرحوم  کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب  الادء ہو، يہ  سب مرحوم کا ترکہ ہے۔اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن و دفن کے متوسط اخراجات نکالنے، اس کے ذمہ واجب الاداء قرض  ادا کرنے اور ایک تہائی(1/3) کی حد تک  اس کی طرف سے کی گئی جائز وصیت (اگر مرحوم نے وصیت کی ہو) پر عمل کرنے کے بعد جو تركہ باقی بچے اس کوچاليس(40) حصوں میں برابر تقسیم کرکے  بیوہ کوپانچ حصے اور ہر بیٹے کو سات سات  حصے دے دیے جائیں،تقسیمِ میراث کا نقشہ  درج ذیل ہے:

نمبر شمار

وارث

   عددی حصہ

    فيصدی حصہ

1

بیوه

5

12.5%

2

بیٹا

7

17.5%

3

بیٹا

7

17.5%

4

بیٹا

7

17.5%

5

بیٹا

7

17.5%

6

بیٹا

7

17.5%

واضح رہے کہ مرحوم کی مرحومہ  بیٹی کی اولاد شرعاً اپنے نانا کی وراثت میں کسی حصہ کی حق دار نہیں ہوگی، کیونکہ شریعت کا اصول ہے کہ مورث (مذکورہ صورت میں والد) کی زندگی میں وفات پانے والے وارث کی اولاد اس کی وراثت میں سے کسی حصہ کی حق دار نہیں ہوتی، البتہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حکم  فرمایا ہے کہ اگر وراثت تقسیم کرتے وقت یتیم اور مسکین لوگ بھی موجود ہوں تو ان کو بھی مال میں سے کچھ حصہ دے دو، لہذا مذکورہ صورت میں اگر تمام ورثاء بالغ ہیں اور وہ مرحوم بیٹی کی اولاد کو بھی تبرع اور احسان کے طور پر وراثت میں سے کچھ حصہ دے دیں تو یہ بہت بڑے اجر کا باعث بھی ہو گا اور اس سے ان شاء اللہ آپس کے رشتہ داری کے تعلقات میں بھی بہتری آئے گی۔

حوالہ جات
القرآن الکریم [النساء: 12]:
{فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ}
القرآن الکریم [النساء: 8]:
{وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا}
السراجی فی المیراث:(ص:19)، مکتبۃ البشری:
العصبات النسبية ثلاثة:عصبة بنفسه، وعصبة بغيره، وعصبة مع غيره أما العصبة بنفسه فكل ذكر لا تدخل في نسبته إلي الميت  أنثي وهم أربعة أصناف جزء الميت وأصله. 
صحيح البخاري (8/ 150) دار طوق النجاة:
عن ابن عباس رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ألحقوا الفرائض بأهلها، فما بقي فهو لأولى رجل ذكر»
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (23/ 238) دار إحياء التراث العربي – بيروت:
(باب ميراث ابن الابن إذا لم يكن ابن) أي: هذا باب في بيان إرث ابن ابن الرجل إذا لم يكن له ابن لصلبه.
وقال زيد: ولد الأبناء بمنزلة الولد إذا لم يكن دونهم ولد ذكر ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم يرثون كما يرثون ويحجبون كما يحجبون، ولا يرث ولد الابن مع الابن. أي: قال زيد بن ثابت الأنصاري ... إلى آخره، وهذا الذي قاله زيد إجماع، ووصل أثره سعيد بن منصور عن عبد الرحمنابن أبي الزناد عن أبيه.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

15/صفرالمظفر 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب