021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نادرا ریگولیشنز ۲۰۰۲ کی دفعہ ۱۳ (۱) میں ترمیم کی شرعی حیثیت
77912جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

نادرا ریگولیشنز ۲۰۰۲ کی دفعہ ۱۳ (۱) میں ترمیم کی گئی. ترمیم کے مطابق مرد (M) اور عورت (F) کے علاوہ  مرد اور عورت کے ساتھ تین نئی جنسیں متعارف کروائی گئی ہیں:

① خصی مرد:  male eunuch

② خصی عورت: female eunuch

③ یونی سیکس: unisex

ان تینوں کو ایک ہی مارکر/ نشان (X) کے تحت ان کے مابین بلا تمیز وتفریق شناختی کارڈز جاری کیے جاتے ہیں، مذکورہ نئی اضافہ شدہ تینوں جنسیں کیا شریعت میں بھی باقاعدہ تسلیم شدہ بشری جنسیں ہیں؟ان نئی جنسوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟کیا یہ ترمیم شرعاً درست اورجائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قرآنِ کریم میں انسان کی صرف دو انواع یعنی مذکر اور مؤنث کا ہی ذکر کیا گیا ہے اور حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے انسان سمیت تمام جانوروں کی مذکر اور مؤنث دو ہی جنسیں بنائی ہیں، ان کے علاوہ کسی اور جنس کا ذکر قرآن وحدیث اورمذاہب اربعہ (حنفیہ،مالکیہ،شافعیہ،حنابلہ) کی کتب میں کہیں نہیں ملتا ، چنانچہ انسان کی صرف دو جنسیں ہونے پر قرآن وحدیث میں صریح دلائل موجود ہیں، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

پہلی دلیل:

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد فرمایا:

القران الكريم  [الحجرات: 13]:

{يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا }

ترجمہ:اے لوگو! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔

 آسان ترجمہٴ قرآن[الحجرات: 13]

دوسرى دليل:

اللہ تعالیٰ نے سورہٴ نساء میں ارشاد فرمایا:

القران الكريم  [النساء: 1]:

{يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وبث منهما رجالا كثيرا ونساء }

ترجمہ: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلا دیں۔ آسان ترجمہٴ قرآن[النساء: 1]

تيسرى دليل:

اللہ تعالیٰ نے سورہٴ فاطر میں رشاد فرمایا:

القران الكريم  [فاطر: 11]:

{وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا }

ترجمہ:اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر تمہیں جوڑے جوڑے بنا دیا۔

 آسان ترجمہٴ قرآن [فاطر: 11]

ان کے علاوہ اور بھی آیات مبارکہ میں سے بعض میں صراحتاً اور بعض میں اشارتاً انسانوں کی صرف دو جنسوں یعنی مذکر اور مؤنث کا ہی ذکر ملتا ہے۔

چوتھى دليل:

شریعت کے تمام احکام بھی مردوعورت سے ہی متعلق ہیں، اسی لیے قرآن وحدیث میں شرعی احکام میں مرد یا عورت کو ہی خطاب کیا گیا ہے، چنانچہ چند آیات ملاحظہ فرمائیں:

القران الكريم  [البقرة: 43]:

{وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ }

القران الكريم  [النساء: 162]:

{وَالْمُؤْمِنُونَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاةَ}

القران الكريم [الأحزاب: 33]:

{ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ}

القران الكريم [الأحزاب: 34، 35]:

{وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا (34) إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا }

ان کے علاوہ اور بھی سینکڑوں آیات موجود ہیں، جن میں صرف مردوں یا عورتوں کو خطاب کر کے احکامِ شریعت کا مکلف بنایا گیا، اسی طرح ہزاروں احادیثِ مبارکہ میں احکام وفضائل دونوں کے باب میں صرف مردوں یا عورتوں کا تذکرہ ملتا ہے۔

پانچویں دلیل:

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے علاوہ دیگر جانوروں اور پرندوں کی بھی دو ہی جنسیں بیان فرمائی ہیں اور قرآن کریم میں بھی ان کی دو ہی جنسوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، چنانچہ عذاب آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

القران الكريم  [هود: 40]:

{ احْمِلْ فِيهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ  }

ترجمہ: ہم نے کہا کہ اس کشتی میں ہر قسم کے جانوروں میں سے دو دو کے جوڑے سوار کر لو۔                 آسان ترجمہٴ قرآن [هود: 40]

خنثی کا حکم:

جہاں تک احادیثِ مبارکہ اور فقہائےکرام رحمہم اللہ کی عبارات میں مردوعورت کے علاوہ خنثی  (جس کے دونوں قسم کےجنسی اعضاء ہوں یا دونوں نہ ہوں،  اس کو انگلش میں انٹر سیکس (Intersex) کہتے ہیں) کے ذکر کا  تعلق ہے تو وہ  بھی اپنی حقیقت  کے اعتبار سےمرد یا عورت ہوتا ہے، اسی لیے مذاہبِ اربعہ کے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے تصریح کی ہے کہ  اولاً خنثی کو مذکرومؤنث کی علامات کے پیشِ نظر مرد یا عورت کی جنس میں ہی داخل  کرنے کی کوشش کی جائے گی، البتہ اگر اس کےمرد یا عورت ہونے کی تعیین مشکل ہو جائے تو  عدمِ تعیینِ جنس کی وجہ سے اس کو خنثی مشکل شمار کیا  جائے گا اور اس پر احتیاط کے تقاضے کے مطابق بعض احکام مردوں والے اور بعض عورتوں والے جاری ہوں گے، جیسےنماز میں عورت کے بیٹھنے کی طرح بیٹھنا، ریشمی کپڑا اور زیور نہ پہننا، حالت احرام میں سلا ہوا کپڑا پہننا اور کسی مرد یا عورت کے سامنے ستر نہ کھولنا، بغیر محرم کے تنہاسفر نہ کرنا اور کسی نامحرم مرد یا عورت کے ساتھ خلوت نہ کرنا وغیرہ۔

لیکن اب اس شعبہ کے بعض اسپیشلسٹ ڈاکٹروں سے معلومات لی گئیں، جن میں اسلام آباد کے ڈاکٹر

عنصر جاوید چیئرمین اور سائکالوجسٹ برتھ ڈیفکیٹس فاؤنڈیشن (Chairman and Psychologist Birth Defects Foundation)اور کراچی کے ڈاکٹر فرحان صدیقی کنسلٹنٹ یورالوجسٹ اینڈ انٹرالوجسٹConsultant Urologist and Enterologist)) کے نام سرِ فہرست ہیں، انہوں نے بتایا کہ خنثی (Intersex) کی ظاہری جنسی اعضاء اور باطنی تولیدی اعضاء کے اعتبار سے چار قسمیں ہوتی ہیں، بعض ظاہری اعتبار سے مرد اور اندرونی نظام کے اعتبار سے عورت ہوتے ہیں، بعض اس کے برعکس ہوتے ہیں اور بعض  میں دونوں جنسوں کے ظاہری اور باطنی اعضاء ہوتے ہیں، مگر ان میں سے کسی ایک جنس کے اعضاء میں نقص ہوتا ہے اور بعض کے دونوں قسم کے اعضاء کامل ہوتے ہیں، لیکن بہر حال اب ان چاروں اقسام کے خنثی کا میڈیکل سائنس  میں علاج کیا جاتا ہے اور الٹراساؤنڈ، ایکسرے اور دیگر ٹیسٹوں کے ذریعہ ظاہری جنسی اعضاء اور باطنی تولیدی اعضاء جیسے ہارمونز اور کروموسومز وغیرہ کے معائنہ کے بعد خنثی کی جنس مرد یا عورت متعین ہو جاتی ہے، ڈاکٹر عنصرجاوید صاحب نے یہ بھی  بتایا کہ ہم نے ایک سو اناسی (179) خنثی بچوں کے آپریشن کیے، اب وہ سب کے سب کامل مرد یا کامل عورت ہیں۔

مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہو گیا کہ اب خنثی مشکل کا وجود تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے اب طبی تحقیق اور معائنہ کے بعد ہر خنثی کو مرد یا عورت کی جنس میں ہی داخل کرنا ضروری ہے۔اگرچہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے خنثی مشکل سے متعلق مستقل احکام ذکر فرمائے ہیں، جیسا کہ بعض احکام پیچھے ذکر کیے گئے ہیں، مگر اب چونکہ اس کی جنس کی تعیین ہوجاتی ہے، اس لیے اب خنثی کی اس نوع  پر بھی مرد یا عورت کے احکام جاری ہوں گے، جیسا کہ غیر خنثی مشکل کا حکم کتبِ فقہ میں مذکور ہے۔ اس کے علاوہ خصی ہونے سے شرعی اور طبی اعتبار سے انسان کی جنس نہیں بدلتی، بلکہ وہ شخص شرعاً اپنی پیدائشی جنس پر برقرار رہتا ہے، نیز خصی ہونے میں ایک انسانی وصف کا ضیاع ہے، جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔

خلاصہ یہ کہ شرعی اور فطری دونوں اعتبار سے انسان کی مرو وعورت صرف دو ہی جنسیں ہیں، کائنات  میں انسان کی  کسی تیسری جنس کا کوئی وجود نہیں ہے، لہذا سوال میں ذکر کردہ نادرا ریگولیشنز میں مردو عورت کے علاوہ یونی سیکس (unisex)، خصی مرد اور خصی عورت کی  جنس کا اضافہ کرنا اور ہر شخص کی جنس اس کی مرضی کے مطابق لکھنا جائز نہیں ہے۔

یہ اضافہ درحقیقت ٹرانس جینڈر پرسن کے قانون"Transgender Persons (Protection of Rights)"  پر عمل درآمد کرتے ہوئے کیا گیا ہے  اور اس قانون میں ہرمردوعورت (خواہ وہ اپنے جنسی اعضاء کے اعتبار سے کامل ہو یا ناقص) کو اپنی جنس کی  تبديلی اورتعیین کا اختیار دیا گیا ہے، جبکہ اپنے ذاتی احساسات ورجحانات اور خصوصیات کی بنیاد پر اپنی پیدائشی جنس کے علاوہ کسی  دوسری جنس کے ساتھ اپنی شناخت کروانا واضح طور پر قرآن وسنت کی تعلیمات کے مخالف ہے، کیونکہ کسی فرد کے مرد یا عورت ہونے کا فیصلہ  اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی کے مطابق کیا ہے، اس میں کسی انسان کی مرضی، منشاء اور ذاتی احساسات ورجحانات اور خصوصیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، چنانچہ مسلم شریف کی حدیثِ صحیح میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے کہ ماں کے پیٹ میں نطفہ کو جب بیالیس دن گزر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتے ہیں جو اس کی شکل وصورت، اعضاء، گوشت اور ہڈیاں بناتا ہے، پھر وہ فرشتہ اللہ تعالیٰ سے پوچھتا ہے کہ یارب! اس کو مذکربنانا ہے یا مؤنث؟ تو اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق اس کے مذکر یا مؤنث ہونے کا فیصلہ فرماتے ہیں، دیکھیے عبارت:

صحيح مسلم (4/ 2037، رقم الحديث: 2645) دار إحياء التراث العربي، بيروت:

حدثني أبو الطاهر أحمد بن عمرو بن سرح، أخبرنا ابن وهب، أخبرني عمرو بن الحارث، عن أبي الزبير المكي، أن عامر بن واثلة، حدثه أنه سمع عبد الله بن مسعود، يقول: الشقي من شقي في بطن أمه والسعيد من وعظ بغيره، فأتى رجلا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يقال له: حذيفة بن أسيد الغفاري، فحدثه بذلك من قول ابن مسعود فقال: وكيف يشقى رجل بغير عمل؟ فقال له الرجل: أتعجب من ذلك؟ فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إذا مر بالنطفة ثنتان وأربعون ليلة، بعث الله إليها ملكا، فصورها وخلق سمعها وبصرها وجلدها ولحمها وعظامها، ثم قال: يا رب أذكر أم أنثى؟ فيقضي ربك ما شاء، ويكتب الملك، ثم يقول: يا رب أجله، فيقول ربك ما شاء،

ويكتب الملك، ثم يقول: يا رب رزقه، فيقضي ربك ما شاء، ويكتب الملك، ثم يخرج الملك بالصحيفة في يده، فلا يزيد على ما أمر ولا ينقص ".

اس سے معلوم ہوا کہ کسی انسان کا مرد یا عورت ہونا خالص اللہ تعالیٰ کا تکوینی اورتشریعی  فیصلہ ہے اور انسانوں کے حق میں اللہ تعالی کے اس فیصلہ کی پہچان انسان کے ظاہری جنسی اعضاء اور باطنی تولیدی اعضاء پر رکھی گئی ہے اور مرد وعورت سے متعلقہ شریعت کے تمام احکام کی بنیاد بھی اسی پر ہے، لہذا جس انسان کے جنسی  اعضاء مردوں والے ہوں شریعت کی نظر میں وہ مرد ہو گا اور مردوں سے متعلق تمام احکام پر عمل کرنا اس پر لازم ہو گا اور جس کے مذکورہ اعضاء عورتوں والے ہوں تو شرعاً اس کو عورت شمار کیا جائے گا اور عورتوں سے متعلقہ تمام احکام  اس پر لاگو ہوں گے۔لہذا کسی بھی فرد کو اس کے ذاتی احساسات اور رجحانات کی بنیاد پر جنس کی شناخت کا اختیار دینا اور اس کے مطابق اس کی جنس کی رجسٹریشن کرنا بالکل جائز نہیں۔

یہ بھی واضح رہے کہ شریعت کے اس اہم مسئلہ میں نادرا کے لیے ٹرانس جینڈر کا قانون عذِر شرعی نہیں ہے، اس کی وجہ  یہ ہے کہ  قانون خود قرآن وسنت اور آئینِ پاکستان کے صریح متصادم ہے، کیونکہ  پاکستان کے آئین میں تصریح ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا، نیزشریعت کے خلاف کام میں حاکم کی اطاعت جائز نہیں ہوتی، چنانچہ معجم طبرانی كی روايت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر ارشاد فرمایا"لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق" یعنی خالق کی نافرمانی والے کام میں مخلوق کی اطاعت جائزنہیں ہے۔ لہذا شریعت اور آئینِ پاکستان کی رُو سے نادرا  کواس قانون پر عمل کرنے کی بجائے شریعت اور آئینِ پاکستان کا سہارا لیتے ہوئے اس قانون کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کرنا  چاہیے، خصوصاً جبکہ اس قانون کے خلاف پاکستان کے معتبر ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات بھی آچکی ہیں۔

حوالہ جات
المعجم الكبير للطبراني (18/ 170، رقم الحديث: 381) مكتبة ابن تيمية - القاهرة:
حدثنا محمد بن علي الصائغ المكي، ثنا يعقوب بن حميد، ثنا يحيى بن سليم، عن هشام بن حسان، عن الحسن، عن عمران بن حصين قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق»
القرآن الكريم: [النساء: 119 - 121]:
{وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا (119) يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا (120) أُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَلَا يَجِدُونَ عَنْهَا مَحِيصًا }
صحيح البخاري (5/ 156) دار طوق النجاة:
حدثنا الحميدي، سمع سفيان، حدثنا هشام، عن أبيه، عن زينب بنت أبي سلمة، عن أمها أم سلمة رضي الله عنها، دخل علي النبي صلى الله عليه وسلم، وعندي مخنث، فسمعته يقول لعبد الله بن أبي أمية: يا عبد الله، أرأيت إن فتح الله عليكم الطائف غدا، فعليك بابنة غيلان، فإنها تقبل بأربع، وتدبر بثمان، وقال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا يدخلن هؤلاء عليكن»
المعجم الكبير للطبراني (11/ 252رقم الحديث: 11647) مكتبة ابن تيمية – القاهرة:
حدثنا أحمد بن الجارودي الأصبهاني، ومحمد بن صالح بن الوليد النرسي، قالا: ثنا مالك بن سعد القيسي، ثنا روح بن عبادة، ثنا زكريا بن إسحاق، عن عمرو بن دينار، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لعن الله المتشبهين من الرجال بالنساء، ولعن المتشبهات من النساء بالرجال»
محمد بن مفرج الحنبلي (المتوفى: 763هـ) مؤسسة الرسالة:
باب ميراث الخنثى: وهو من له شكل ذكر رجل وفرج امرأة، فإن بال أو سبق بوله من ذكره فهو ذكر، نص عليه، وعكسه أنثى، وإن خرج منهما معا اعتبر أكثرهما، فإن استويا فمشكل.
الحاوي الكبير (8/ 168) دار الكتب العلمية، بيروت:
قال الشافعي: الخنثى هو الذي له ذكر كالرجال وفرج كالنساء أو لا يكون له ذكر ولا فرج ويكون له ثقب يبول منه، وهو وإن كان مشكل الحال فليس يخلو أن يكون ذكرا أو أنثى، وإذا كان كذلك، نظر، فإن كان يبول من أحد فرجيه فالحكم له، وإن كان بوله من ذكره فهو ذكر يجري عليه حكم الذكور في الميراث وغيره ويكون الفرج عضوا زائدا وإن كان بوله من فرجه فهو أنثى يجري عليه أحكام الإناث في الميراث وغيره ويكون الذكر عضوا زائدا لرواية الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس عن النبي - صلى الله عليه وسلم  - أنه سئل عن مولود ولد له ما للرجال وما للنساء فقال - صلى الله عليه وسلم  - يورث من حيث يبول.
المعونة على مذهب عالم المدينة (ص: 1657) أبو محمد عبد الوهاب بن علي بن نصر الثعلبي البغدادي المالكي (المتوفى: 422هـ) المكتبة التجارية، مكة المكرمة:
الخنثى يعتبر منها بالمبال، فإن بال من الذكر حكم له بحكم الذكر، وإن بال من الفرج حكم بحكم الأنثى، وإن بال منهما جميعا فهو الخنثى المشكل فيكون له نصف ميراث الذكر ونصف ميراث الأنثى متفق عليه.
الإقناع في مسائل الإجماع (2/ 104) علي بن محمد بن عبد الملك الكتامي الحميري الفاسي، أبو الحسن ابن القطان (المتوفى: 628هـ) الفاروق الحديثة للطباعة والنشر:
وأجمع كل من يحفظ عنه من أهل العلم على أن الخنثى يورث من حيث يبول، إن بال من حيث يبول الرجل ورث ميراث الرجال، وإن بال من حيث تبول المرأة ورث ميراث المرأة، وهو قول الكوفة وسائر أهل العلم.
الدر المختار مع حاشية ابن عابدين (6/ 727) دار الفكر-بيروت:
وهو ذو فرج وذكر أو من عرى عن الاثنين جميعا، فإن بال من الذكر فغلام، وإن بال من الفرج فأنثى وإن بال منهما فالحكم للأسبق، وإن استويا فمشكل، ولا تعتبر الكثرة.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

2/ربیع الاول 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب