021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
صرف سودی بینک،انشورنس کمپنی یا اسی طرح کے ناجائز کام کرنے والی کمپنی کے لیے سافٹ ویئر بنانا اور ان کو اپنی خدمات فراہم کرنا
78003خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

ایسی سافٹ ویئر کمپنی جو اپنے سافٹ ویئر سودی بینک یا انشورنس کمپنی کے لیے بناتی ہو اور انہیں کل وقتی خدمات بھی فراہم کرتی ہو ،ایسی کمپنی کی آمدنی جائز ہوگی یا نہیں؟

بعد  از تنقیح ،درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں۔

۱)سافٹ ویئر بنانے والی ایسی کمپنی جو صرف  سودی بینکوں ،انشورنس کمپنیوں یا اسی طرح کے ناجائز کام کرنے والے اداروں کے لیے سافٹ ویئر بناتی ہواور ان کو اپنی کل وقتی  خدمات فراہم کرتی ہو،ایسی کمپنی کی آمدن کا حکم کیا ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی صرف ایسے سافٹ ویئر بناتی ہو جو سودی بینک،انشورنس کمپنی یا اسی طرح کے کسی ناجائز کام کرنے والی کمپنی میں،صرف ناجائز کاموں کے لیےہی استعمال ہوتے ہوں یا ان سافٹ ویئر کا استعمال جائز اور ناجائز دونوں طرح کے معاملات میں ہوتا ہو لیکن سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی ناجائز معاملات میں معاونت کی نیت سے معاملہ کرتی ہو ،اپنا سافٹ ویئر بیچتی ہو اور دیگرخدمات فراہم کرتی ہو یا عقد کرتے وقت مذکورہ سافٹ ویئر کے ناجائز معاملات میں استعمال کی صراحت کردی گئی ہو تو ایسی صورت میں ایسی سافٹ ویئر کمپنی کی آمدن جائز نہیں ہوگی،البتہ اگر وہ سافٹ ویئرز جائز معاملات میں بھی استعمال ہوتے ہوں اور عقد کرتے وقت، ناجائز معاملات میں استعمال کی صراحت نہ کی گئی ہو اور نہ سافٹ ویئرز ناجائز معاملات مین تعاون کی نیت سے بیچے گئے ہوں اور نہ بیچتے وقت یہ معلوم ہو کہ بینک یا انشورنس کمپنی یا اسی طرح کے کسی ناجائز کام کرنے والی کمپنی ان سافٹ ویئرز کو لازماً ناجائز معاملات میں استعمال کرے گی تو ایسی صورت میں ایسی سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی کی آمدن کراہت کے ساتھ جائز ہوگی۔

حوالہ جات
قال الشیخ المفتی محمد تقی العثمانی حفظہ اللہ :ویتلخص منہ، أن الانسان اذا قصد  الاعانۃ  علی المعصیۃ  باحدی الوجوہ الثلاثۃ المذکورۃ(أن یقصد الاعانۃ  علی المعصیہ،بتصریح المعصیۃ فی صلب العقد،بیع اشیاء لیس لھا مصرف الا فی المعصیۃ)، فان العقد حرام لا ینعقد والبائع آثم۔اما اذا لم یقصد ذٰلک، وکان  البیع سببا للمعصیۃ، فلا یحرم العقد ،ولکن اذا کان سببا محرکا، فالبیع حرام ،وان لم یکن محرکا ، وکان سببا قریبا  بحیث یستخدم فی المعصیۃ  فی حالتھا الراھنۃ ، ولا یحتاج الی صنعۃ جدیدۃ من الفاعل  کرہ تحریما والا فتنزیھا…
وکذٰلک الحکم فی برمجۃ الحاسب الآلی (الکمبیوتر)لبنک ربوی، فان قصد  بذٰلک الاعانۃ، او کان البرنامج مشتملا علی مالا یصلح الا فی الاعمال الربویۃ،أو الأعمال المحرمۃ الأخری،فان العقد حرام باطل.أما اذا لم یقصد الاعانۃ ،ولیس فی البرنامج  ما یتمحض للأعمال المحرمۃ ،صح العقد وکرہ تنزیھا.
(فقہ البیوع:۱/۱۹۴)

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

09/ربیع الاول1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب