021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ادھار سامان فروخت کرنے میں قیمت نقد سے زیادہ متعین کرنے کا حکم
75796خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

ہمارا تمباکو کا کاروبار ہے، ادھار تمباکو ہم تقریباً 250روپے فی کلو دیتے ہیں جبکہ نقد میں 225روپے فی کلو دیتے ہیں۔ کیا اس طرح کاروبار کرنا صحیح ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ خرید و فروخت کا معاملہ کرتے وقت خریدار اور فروخت کنندہ کے لئے  مبیع اور قیمت کا متعین کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ باہمی رضا مندی سے   نقد کا  معاملہ کرتے وقت سامان  کی قیمت کم طے کرنے اور ادھار کا معاملہ کرتے وقت زیادہ قیمت  طے  کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔  البتہ اس کیلئے  درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

1۔ معاملہ کرتے وقت ہی خریدار اور فروخت کنندہ یہ متعین کر لیں کہ وہ معاملہ نقد کر رہے ہیں یا ادھار۔

2۔ ادھار معاملہ کی صورت میں  ادھار کی مدت  بھی متعین کرلی جائے۔

3۔ مدت میں ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں جرمانہ وغیرہ کے نام سے قیمت میں اضافہ نہ کیا جائے۔

چنانچہ ان میں سے کوئی ایک بھی شرط  نہ پائی گئی تو خرید و فروخت کا معاملہ شرعاً درست نہ ہو گا۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ ادھار کی صورت میں ابتدا  طے کی جانے والی  یہ زیادہ رقم در اصل سامان ہی کی قیمت شمار ہوتی ہے، اسے سود سمجھ کر بلا وجہ شبہات میں نہ پڑنا چاہیے۔ چنانچہ نقد میں 225 اور ادھار میں 250 روپے فی کلو فروخت کرنا درج بالا شرائط کے ساتھ درست ہے۔

حوالہ جات
الهداية شرح البداية: (3 / 22)
قال ويجوز البيع بثمن حال ومؤجل إذا كان الأجل معلوما لإطلاق قوله تعالى{ وأحل الله البيع } وعنه عليه الصلاة والسلام أنه اشترى من يهودي طعاما إلى أجل معلوم ورهنه درعه ولا بد أن يكون الأجل معلوما۔
حاشية ابن عابدين : (5 / 142)
ويزاد في الثمن لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن قصدا۔
البحر الرائق : (16 / 221)
لأن للأجل شبها بالمبيع ألا ترى أنه يزاد في الثمن لأجل الأجل ، والشبهة في هذا ملحقة بالحقيقة۔
الفقه الإسلامي وأدلته :(5 / 147)
أجاز الشافعية والحنفية والمالكية والحنابلة وزيد بن علي والمؤيد بالله والجمهور: بيع الشيء في الحال لأجل أو بالتقسيط بأكثر من ثمنه النقدي إذا كان العقد مستقلاً بهذا النحو، ولم يكن فيه جهالة بصفقة أو بيعة من صفقتين أو بيعتين، حتى لايكون بيعتان في بيعة.

محمد انس جمیل

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

5، رجب المرجب 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب